برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم ’ایک پہیلی‘، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
10 جولائی 2015ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کرسٹیان ایف ٹرپے کہتے ہیں کہ برکس میں شامل برازیل، بھارت، چین، روس اور جنوبی افریقہ کو اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون کا ایک مخالف گروپ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ برکس بھی خود کو تھوڑا بہت اسی طرح سے سمجھتا ہے۔ چین کے پاس مغربی ممالک کے سامنے کھڑا ہونے کی طاقت ہے اور روس کے پاس ہمت۔ جبکہ اس تنظیم کے دیگر تین ارکان ان دونوں خصوصیات سے عاری ہیں۔ برازیل، جنوبی افریقہ اور بھارت جمہوری ممالک ہیں اور انہیں مغربی دنیا سے کسی قسم کے تصادم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دوسری جانب چین اور روس ہیں، جہاں آمرانہ طرز حکومت ہے اور جن کا مغرب کے ساتھ رویہ بالکل مختلف ہے۔ اس رویے میں مستقبل قریب میں کوئی تبدیلی آنے کی بھی امید نہیں ہے۔
کرسٹیان ایف ٹرپے لکھتے ہیں کہ اس کے باوجود برکس میں شامل تمام ممالک مطمئن ہیں اور انہوں نے مل کر ایک ترقیاتی بینک کھول لیا ہے، تعاون و ترقی پر مل کر کام کیا جا رہا ہے اور سرکاری سطح پر مختلف منصوبے بھی جاری ہیں۔ اوفا میں برکس کے اجلاس کے دوران انفیکشن کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے موضوع پر بھی تبادلہٴ خیال کیا گیا۔ جون میں جی سیون اجلاس میں بھی ایبولا اور دیگر وباؤں پر بات کی گئی تھی۔ یہاں پر ایسا لگتا ہے کہ برکس کا اجلاس جی سیون سربراہ اجلاس کی ہی بازگشت تھی۔ برکس میں مشترکہ اقتدار کی کمی دکھائی دیتی ہے۔ اوفا میں تحفظ ماحول اور شہری حقوق کے بارے میں کوئی لفظ بھی سنائی نہیں دیا۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ دوسری جانب شنگھائی تعاون تنظیم کو حقیقی چیلنجز کا سامنا ہے، جن پر وہ اپنے ایک مؤثر تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ہی قابو پا سکتی ہے۔ اسے قائم کیا گیا تھا، وسطی ایشیا میں سلامتی کے شعبے میں اشتراک عمل کو بہتر بنانے کے لیے۔ اس کی ضرورت بھی عنقریب پڑے گی کیونکہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکا افغانستان سے بتدریج واپس جا رہے ہیں۔ حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت جیسے ایک دوسرے کے مخالف ممالک بھی اس تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس کے اچھے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔
کرسٹیان ٹرپے کے بقول امریکا کے زیادہ تر سیاستدان اور عسکری ماہرین روس کی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو عالمی سلامتی کے لیے خطرناک ترین قرار دیتی ہیں۔ مغرب کے کچھ حلقے یوکرائن کےحوالے سے روس اور مغربی دنیا کے تناؤ کو ایک ’غلط‘ تنازعہ سمجھ رہے ہیں اور تیونس سے لے کر پاکستان تک ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی بربریت کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کو لازمی قرار دے رہے ہیں۔