Hilfe für Europa
17 ستمبر 2011لیکن ڈوئچے ویلے شعبہء جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہیم لوکاس کی رائے میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔اس بارے میں گراہیم لوکاس اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں:
یورپ میں ایسا کس نے سوچا تھا کہ عنقریب ہی برکس ریاستوں کا ایک اجلاس ہو گا، جس میں یورپ کے لیے ممکنہ امدادی اقدامات سے متعلق مشورے کیے جائیں گے۔ صرف چند سال پہلے تک یہ پانچ ملک ایسی ریاستیں تھے، جن کو دوسری دنیا کہا جاتا تھا اور جو یورپی نقطہ نظر سے ایسے ملک تھے، جو ترقی کی دہلیز پر کھڑے تھے۔ تب یورپ ان ملکوں کو ایک خاص نظر سے دیکھتا تھا۔ لیکن وقت تبدیل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
اب یورپ میں وہ کچھ ہو رہا ہے، جس کا کئی سالوں سے خدشہ تھا۔ یورپی یونین میں سیاسی انضمام کے عمل میں جمود کی صورت حال کے باعث یورو ممالک کی حکومتوں کے لیے قریب قریب نا ممکن ہوتا جا رہا ہے کہ وہ یورو زون کے بحران کا خود کوئی حل تلاش کر سکیں۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یہ امکان زیادہ ہوتا جا رہا ہے کہ یورپ کو اس بحران پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی مدد پر انحصار کرنا پڑے گا۔
برکس گروپ آج اگر یورپ کی طرف دیکھتے ہوئے تشویش کا شکار ہو جاتا ہے، تو اس کی وجہ سمجھ آنے والی ہے۔ اسے بہت زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ بات تجارت کی ہے۔ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی اور یورپ کے ساتھ ان ملکوں کے تجارتی روابط زیادہ سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔ اگر یورو کی قدر میں مزید کمی ہوتی ہے، تو ان ملکوں کی یورو زون کو برآمدات انتہائی مہنگی ہو جائیں گی۔ پھر شاید ہی کوئی یورپی منڈیوں میں ان کی برآمدی مصنوعات خریدے گا۔ لیکن بات یہیں پر ہی ختم نہیں ہو گی۔
BRICS ممالک نے امریکہ میں بجٹ کے بحران اور واشنگٹن حکومت کے مالی ادائیگیوں کے قابل نہ رہنے کے شدید خطرات کے پیش نظر اپنے رد عمل میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کو ترجیح دی تھی۔ ان ملکوں نے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر کا ایک بڑا حصہ ڈالر بیچ کر یورو میں بدل لیا تھا۔ اب اگر یورو کی قدر میں مزید کمی ہوتی ہے، تو ان ریاستوں کو اربوں کا نقصان ہو گا۔
پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین اپنی داخلی منڈی کی حفاظت کے لیے درآمدی محصولات متعارف کرا دینے کا فیصلہ کرے۔ اس کا نقصان بھی برکس ملکوں کو ہی سب سے زیادہ ہو گا۔ اس کا ایک ثبوت یورپی یونین کا پندرہ ستمبر کو کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے، جس کے تحت چینی برآمد کنندگان کی طرف سے یورپ میں ڈمپنگ کو روکنے کے لیے ٹائلوں کی درآمد پر حفاظتی محصولات عائد کر دیے گئے ہیں۔
اگر برکس ریاستیں یورپ کی مدد کرنا چاہتی ہیں، تو یورپ کو ایسی کسی بھی ممکنہ مدد کے سیاسی اور اقتصادی مضمرات کو بھی ذہن میں رکھنا ہو گا۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ یورپ کے لیے برکس ملکوں کی طرف سے ایسی کسی بھی ممکنہ مدد کو مسترد کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور پھر اب چین بھی ان حالات میں ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہو کر بات چیت کرنے لگا ہے، جو یورپ کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن ہے۔ اسی لیے اس وقت یورپ کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
تبصرہ: گراہیم لوکاس
ترجمہ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس