1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں تارکین وطن کا کیا بنے گا؟

28 اپریل 2018

’ونڈ رش اسکینڈل‘ میں کئی تارکین وطن کو غلط طریقے سے ملک بدر کیے جانے کے بعد برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا رہا۔ برطانیہ میں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی کے خدوخال کیسے ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/2wqW5
Frankreich Calais Blockade Eurotunnel
تصویر: Reuters/V. Kessler

سن 1948 میں دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے ویسٹ انڈیز سے کئی ’گیسٹ ورکرز‘ بلائے تھے۔ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم ان مہمان مزدوروں کے اہل خانہ کو ملک بدر کیے جانے کے بعد لندن حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

بعد ازاں برطانیہ نے ’ونڈ رش اسکینڈل‘ سے متاثر افراد سے معذرت کرتے ہوئے انہیں برطانوی پاسپورٹ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

’معاندانہ ماحول‘ کا ایجنڈا

مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’مائگرینٹ وائس‘ سے تعلق رکھنے والے نازک رمضان سمیت کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ونڈ رش اسکینڈل برطانوی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف روا رکھے گئے ’معاندانہ ماحول‘ کا نتیجہ ہے۔

رمضان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی سن 2013 میں اختیار کی گئی تھی اور اس وقت موجودہ وزیر اعظم ٹریزا مے ملکی وزیر داخلہ تھیں۔ تب انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ تارکین وطن کے خلاف اس سخت پالیسی کا مقصد ’غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف انتہائی مشکل ماحول پیدا کرنا ہے‘۔

یورپی یونین سے اخراج اور مہاجرت

یورپی یونین سے برطانوی اخراج کا عمل انتیس مارچ سن 2019 تک مکمل ہو جائے گا۔ بریگزٹ کے حامیوں کی خواہش ہے کہ لندن حکومت مہاجرت کے خلاف مزید سخت پالیسی اپنائے۔ دوسری جانب کاروباری حلقوں کو خطرہ ہے کہ ہنرمند تارکین وطن کو ملازمتیں فراہم کرنے میں مشکلات کے باعث ان کے کاروبار متاثر ہوں گے۔

مہاجرت سے متعلق برطانوی وزیر کیرولین نوکس کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کے بعد کے دور کے لیے نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان رواں برس موسم خزاں میں کر دیا جائے گا۔

'صورت حال ویسی ہی رہے گی‘

بریگزٹ سے سب سے زیادہ متاثر برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے شہری ہوں گے جب کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر بریگزٹ کے براہ راست اثرات مرتب ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ مہاجرت کے امور کے ماہر پروفیسر الیگزنڈر بیٹس بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق برطانیہ پہلے ہی آزادانہ نقل و حرکت کے یورپی خطے، یعنی شینگن، کا حصہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے برطانیہ گزشتہ برسوں کے دوران یورپ میں مہاجرین کے بحران سے بھی دیگر یورپی ممالک کی نسبت بہت کم متاثر ہوا تھا۔

پناہ گزینوں کی زیادہ تعداد فرانسیسی ساحلی شہر کیلے میں چینل ٹنل کے راستے فرانس سے برطانیہ پہنچی تھی۔ برطانیہ اور فرانس کے مابین ایک تازہ معاہدے کے مطابق چینل ٹنل پر سکیورٹی انتظامات بڑھائے جا رہے ہیں اور برطانیہ فرانسیسی سرزمین پر ہی بارڈر کنٹرول کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ فرانس اور برطانیہ کے مابین ہے اور یہ بھی بریگزٹ سے متاثر نہیں ہو گا۔

عالمی قوانین کی پاسداری، لیکن پالیسی سخت

برطانیہ یورپی یونین میں مہاجرین کی تقسیم کے منصوبہ کا حصہ بھی نہیں بنا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کے ساتھ معاہدے کے تحت برطانیہ نے سن 2020 تک بیس ہزار شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسی طرح کم عمر تارکین وطن کو پناہ دینے کے بارے میں بھی برطانیہ اسی عالمی ادارے کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

اسی طرح برطانیہ مہاجرین کو تحفظ فراہم کرنے کے عالمی معاہدوں کی پاسداری بریگزٹ کے بعد بھی جاری رکھے گا۔

تاہم رمضان اور پرفیسر بیٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر یورپی پناہ گزینوں پر بریگزٹ کے بلواسطہ اثرات ضرور مرتب ہو سکتے ہیں۔ دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ یورپی یونین سے اخراج کے بعد برطانوی امیگریشن پالیسی مزید سخت کر دی جائے گی۔

برطانیہ میں سیاسی پناہ سے متعلق اعداد و شمار

برطانیہ کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق ستمبر 2017ء سے قبل کے بارہ ماہ کے دوران ’نیٹ امیگریشن‘ دو لاکھ چوالیس ہزار رہی۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ عرصے کے مقابلے میں تو کم ہے لیکن لندن حکومت کا ہدف تھا کہ اسے ایک لاکھ تک محدود کر دیا جائے۔

سن 2017 میں پندرہ ہزار سے زائد افراد کو مختلف حیثیتوں میں پناہ دی گئی۔ پانچ ہزار سے زائد افراد کو فیملی ری یونین ویزے بھی دیے گئے جو کہ اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم تھے۔

اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ میں تینتیس ہزار سے زائد افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، اس کے مقابلے میں اس دوران جرمنی میں دو لاکھ، اٹلی میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اور فرانس میں ایک لاکھ افراد نے پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر افراد کا تعلق ایران، پاکستان اور عراق سے تھا۔

ش ح / ا ب ا (ماریون میک گریگر- انفو مائگرینٹس)