1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان لبریشن آرمی نے کوئٹہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی

11 اپریل 2023

کوئٹہ میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب چند روز قبل ہی حکام نے ایک اعلیٰ بلوچ علیحدگی پسند رہنما کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم سمیت متعدد رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4PtAS
Pakistan Peshawar Explosion der Polizeilinie
تصویر: Faridullah Khan/DW

پیر کے روز پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے کوئٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے لی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کوئٹہ میں یہ تیسرا دھماکہ تھا۔ حملے میں دو پولیس اہلکار سمیت چار افراد ہلاک اور بائیس زخمی ہوگئے۔

بی ایل اے کے ترجمان جیاند بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا، "بلوچ لبریشن آرمی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اورہم اپنے اس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ عوام کے خلا ف زیادتیاں کرنے والوں کو قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔"

بی ایل اے نے بیان میں کہا کہ اس حملے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد ہلا ک ہوئے ہیں۔

پاکستان: خود کش حملے میں نو پولیس اہلکار ہلاک، سولہ زخمی

پیرکے روز کا حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستانی حکام نے گلزار امام عرف شمبے  نامی ایک اعلی بلوچ علیحدگی پسند رہنما کو چند روز قبل گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستانی آرمی کی طرف سے جمعے کے روز جاری ایک بیان میں شمبے کی گرفتاری کو بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تھا۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے گا
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے گاتصویر: picture alliance/dpaEPA/PMLN

یہ دہشت گردانہ حملہ ہے، شہباز شریف

خیال رہے کہ پاکستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ نے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند بلوچستان  میں سکیورٹی فورسز کے خلاف حملے کرتے رہے ہیں۔

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے حملے کے حوالے سے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے زخمیوں کی ہرممکن طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت دی۔

انہوں نے کہا کہ "دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔"

کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی طرف جا رہا ہے؟

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد عناصر اس طرح کے حملوں سے قوم کے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔ اور ہم "مٹھی بھر دہشت گرد عناصر کو جلد ختم کر کے دم لیں گے۔"

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بازاروں، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت شہری آبادیوں کو نشانہ بنانا بربریت ہے اور دہشت گردوں کا انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

بلوچستان کے کوئٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے لی ہے
بلوچستان کے کوئٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے لی ہےتصویر: NASEER AHMED/REUTERS

دھماکہ کہاں ہوا؟

سینیئر پولیس افسر شفقت چیمہ نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پہلا حملہ قندھاری بازار میں ایک کار میں ہوا۔ یہ کار ایک کارگذار ایس پی کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑی میں بیٹھے دو پولیس افسر اس دھماکے میں ہلاک ہوگئے جب کہ دو دیگر عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکہ خیز مادہ مذکورہ گاڑی کے پاس کھڑے ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف نئی احتجاجی تحریک

بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس دھماکے کے لیے جدید ترین دھماکہ خیز آلات کا استعمال کیا گیا تھا۔

دوسرا دھماکہ کوئٹہ کے سریاب پھاٹک کے قریب ہوا جس میں ایک تھانیدار کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اس میں کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا البتہ دو راہ گیر زخمی ہو گئے۔

پشاور کے بعد کوئٹہ بھی دھماکوں سے گونج اٹھا

قبل ازیں اتوار کے روز بھی کوئٹہ کے ایگل چوک پر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں دو پولیس افسر ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ جب کہ پولیس نے حملہ آوروں میں سے ایک کو مار گرایا تھا۔

خیال رہے کہ چین اپنے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) کے تحت بلوچستان میں متعدد پروجیکٹوں پر کام کر رہا ہے لیکن عسکریت پسند اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)