بلوچستان میں ’اسکیبیز‘ کے شکار افراد کی حالت تشویش ناک
10 ستمبر 2010عالمی ادارہء صحت نے سیلاب کے بعد متعدی بیماریوں کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہات اور اِن بیما ریوں سے بچنے کے لئے اہم ترین اقدامات کے بارے میں ایک تفصیلی تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سیلاب جیسی ناگہانی آفت سے متاثرین میں انفیکشن یا عفونت بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
پاکستان کے حالیہ سیلاب کے بعد مختلف علاقوں میں سرگرم ملکی اور غیر ملکی ادارے ایسے علاقوں میں متاثرین کو طبی امداد پہنچانے کی ممکنہ کوششیں کر رہے ہیں، جہاں نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی حفظان صحت کا کوئی باقاعدہ نظام موجود ہے۔ انسانی امدد کے کاموں پر مامور ایک جرمن غیر سرکاری امدادی تنظیم Lands Aid کی ایک 5 رکُنی میڈیکل ٹیم 31 اگست سے اپنے رات دن بلوچستان میں طبی امدادی کاموں میں صرف کر رہی ہے۔ اس ٹیم کی ایک ڈاکٹر زرقا خواجہ ’قصہ محمد‘ نامی ایک علاقے میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں’’یہاں جلد کی بیماری سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بہت زیادہ آلودہ پانی ہے۔ جلدی بیماری اسکیبیز ہے، پھر پاؤں کا انفیکشن ہے، جس میں پیروں میں فنگس لگ رہی ہے۔ لوگوں کے پاس جوتے نہیں ہیں۔ نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہے، جہاں وہ صاف پانی سے اپنے ہاتھ پیر دھو سکیں‘۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صاف پانی کی قلت دراصل وہاں کے لوگوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ طرح طرح کے انفیکشن پھیلنے کی وجہ یہی ہے کہ ٹھہرا ہوا پانی بہت تیزی سے عفونت زدہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر زرقا کے بقول ’اُسی پانی میں گائے بھینسیں ہیں اور اُسی سے انسان بھی اپنی حاجت پوری کر رہے ہیں۔ نہ تو ٹائلٹ میسر ہیں، نہ ہی صاف پانی کا کوئی ذریعہ، جہاں یہ لوگ کم از کم اپنے ہاتھ مُنہ صاف کر سکیں۔ ستم تو یہ ہے کہ لوگ انسانی اور حیوانی فضلے سے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ صاف پانی میسر ہی نہیں‘۔
ڈاکٹر زرقا کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لئے اس میں آیوڈین کی گولیاں ڈالی جائیں۔ پانی کو پینے کے قابل بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اُسے اُبال لیا جائے۔
رپورٹ: کشور مُصطفیٰ
ادارت: امجد علی