سیلاب زدگان کی امداد کے لئے کون کیا کر رہا ہے؟
9 ستمبر 2010پاکستانی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانے سے سکھر کے قریب شکار پور بائی پاس پر قائم کیا گیا ایک کیمپ اصطبل کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں بچے، بوڑھے، خواتین اور جانوروں کو ایک ہی جگہ پر کھانے پینے کی سہولیات فراہم کی جارہی ہے۔ اس کی نسبت قریب ہی قائم ایک این جی او کے کیمپ میں متاثرین کو نہایت منظم انداز میں تمام بنیادی ضرورتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ وزیرخزانہ کے اس کیمپ کی نگرانی کرنے والے ان کے کارکن میڈیا کے نمائندوں کو کیمپ میں رہنے والوں سے بات نہیں کرنے دیتے۔ جب ہم نے وہاں پر موجود کچھ لوگوں کو سرکاری کیمپ سے باہر بلا کر بات کی تو انہوں نے شکایات کے انبار لگا دیے اور سہولتوں کی عدم فراہمی کی بات کی۔
اس کے قریب قائم ایک این جی او کے کیمپ میں موجود لڑکی نے نہایت پر عزم انداز میں متاثرین کو حاصل سہولیات کی تفصیل بتائیں۔
متاثرین کی شکایت اپنی جگہ لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر وعدوں کے باوجود مالی امداد کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ان مشکلات کی ایک بڑی وجہ حکومت کی ساکھ بتائی جاتی ہے جبکہ امریکہ سمیت متعدد یورپی ممالک یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ امداد کا بڑا حصہ این جی اوز کے ذریعے فراہم کیا جائے گا۔ سٹی پولیس لائزن کمیٹی بھی سیلاب زدگان کے لئے امدادی کیمپوں کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ حکومتی کیمپوں کی نسبت این جی اوز کے کیمپوں کی بہتر حالت کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر سی پی ایل سی کے سربراہ احمدچنائے نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر حکومت کی نسبت این جی اوز پر زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک امداد کا بڑا حصہ این جی اوز کے ذریعے متاثرین سیلاب پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔
سیلاب زدگان کیلئے کام کرنے والی ایک اور این جی او کی سرگرم رکن عنبر علی کا کہنا ہے کہ حکومت میں نہ اونر شپ کا احساس اور نہ احتساب جبکہ این جی او میں احتساب کا عمل کڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: ندیم گِل