1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلیک بیری :بھارت میں پابندی سے قبل حتمی مذاکرات

30 اگست 2010

بھارتی حکومت بلیک بیری نامی سمارٹ فون بنانے والی کینیڈا کی کمپنی کے ساتھ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لئے آج پیر کے روز ایک اور کوشش کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/OzNt
بھارت میں بلیک بیری صارفین کی تعداد 1.1 ملین ہےتصویر: DPA

بھارتی حکومت بلیک بیری نامی سمارٹ فون بنانے والی کینیڈا کی کمپنی کے ساتھ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لئے آج پیر کے روز ایک اور کوشش کر رہی ہے۔ اس کوشش کا مقصد بلیک بیری سروسز کے حوالے سے سکیورٹی سے متعلق وہ اختلاف رائے ختم کرنا ہے، جو نئی دہلی حکومت اور اس کمپنی کے درمیان پایا جاتا ہے۔

بلیک بیری بنانے والی کینیڈا کی کمپنی کا نام ریسرچ ان موشن (Research in Motion) ہے جو مختصراً RIM بھی کہلاتی ہے۔ نئی دہلی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ کے اعلیٰ اہلکار جی کے پلائی RIM کے اعلیٰ نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ہیں۔ خیال کیا جارہا کہ نئی دہلی حکومت بلیک بیری بنانے والی اس کمپنی کو ملکی سکیورٹی کے حوالے سے اپنے تحفظات کے سلسلے میں اس لئے مزید وقت دے سکتی ہے کہ RIM یہ مطالبات پورے کر سکے۔

نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ آج ہونے والی میٹنگ میں وزارت داخلہ کے اہلکاروں، RIM کے نمائندوں اور وزارت ٹیلی کمیونی کیشن کے اہلکاروں کے علاوہ ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کی نمایاں شخصیات شریک ہوں گی۔

Microsoft Handy Modell Online Netzwerke
تصویر: AP

بھارتی حکومت نے ریسرچ ان موشن کو اسی مہینے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر ملکی سکیورٹی اداروں کو بلیک بیری سمارٹ فونز کے صارفین کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغامات تک رسائی ممکن نہ بنائی گئی تو 31 اگست سے بھارت میں بلیک بیری فونز کے ذریعے ایس ایم ایس پیغامات بھیجنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔

اس ڈیڈ لائن کے ختم ہونے میں اب صرف ایک دن رہ گیا ہے، اسی لئے کوشش کی جارہی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی بہتر حل تلاش کر لیا جائے۔ بلیک بیری فون کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے صارفین جو پیغامات بھیجتے ہیں، وہ براہ راست RIM کے کینیڈا اور برطانیہ میں موجود کمپیوٹر سرورز پر منتقل ہوجاتے ہیں جہاں سے یہ پیغامات ان صارفین تک پہنچ جاتے ہیں، جنہیں وہ بھیجے گئے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بلیک بیری کی طرف سے استعمال کیا جانے والا ایک خاص کوڈنگ نظام ہے۔ بھارتی حکومت کا مطالبہ ہے کہ چونکہ وہ ایسے پیغامات پر سلامتی کے پہلو سے کوئی نظر نہیں رکھ سکتی ، اس لئے بلیک بیری کی یہ سروس بھارت میں قومی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اس بارے میں ماہرین کو خدشات ہیں کہ ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی طرح اگر دہشت گرد ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں اور پیغامات کے لئے بلیک بیری موبائل فون استعمال کرتے ہیں، تو بھارتی حکومت کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔ اس لئے بلیک بیری کمپنی کو بھارتی سکیورٹی اداروں کو یہ سہولت مہیا کرنی ہوگی کہ وہ بلیک بیری صارفین کے بھیجے جانے والے ٹیکسٹ پیغامات کو ڈی کوڈ کر سکیں۔

بھارت میں بلیک بیری صارفین کی تعداد 1.1 ملین ہے۔ ایسی ہی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بلیک بیری کو کئی دیگر ملکوں میں بھی ریاستی حکام کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔

رپورٹ : عصمت جبیں

ادارت : افسر اعوان