1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش کے ’ہم جنس پرست‘ خطرے میں

بینش جاوید18 مئی 2016

دہشت گرد تنظيموں القاعدہ اور داعش کے ہاتھوں گزشتہ برس فروری سے اب تک بنگلہ دیش میں 23 ہم جنس پرست افراد کو قتل کیا جا چکا ہے، جس سبب اس کمیونٹی کے افراد میں خوف کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IpiR
Bangladesch Blogger Xulhaz Mannan Dhaka Leichnam SW bearbeitet
تصویر: Getty Images/AFP/str

''اپنے لیے دعا مانگ لو، خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو، اب تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا،‘‘ یہ تحریر ایک خط کی صورت میں بنگلہ دیش کے ایک ہم جنس پرست شخص کو موصول ہوئی تھی۔ کچھ ہی روز قبل اس نوجوان کا ایک قریبی دوست، جو ہم جنس پرستوں کے حقوق کا ایک سرگرم کارکن بھی تھا، شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔

مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد کو بنگلہ دیش میں نیچی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسلمان اکثریتی ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادی غیر قانونی ہے اور اسے ایک بہت ہی معیوب فعل تصور کیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش ميں مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد کے لیے بنائے گئے پہلے جریدے کے 35 سالہ مدیر زالہاز منان اور محبوب ربی کو بنگلہ دیشی دارلحکومت ڈھاکہ میں اسی سال 25 اپریل کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی۔ یہ دہشت گرد تنظيم اس سے قبل یونیورسٹی پروفیسرز، بلاگرز اور ایسے افراد کو قتل کر چکی ہے جو مذہب اسلام کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے۔

Bangladesch Aktivisten Mord Dhaka Journalisten Homosexuellen Aktivisten Leichen werden abtransportiert
LGBT افراد کے لیے بنائے گئے پہلے جریدے کے 35 سالہ مدیر زالہاز منان کو ڈھاکہ میں اسی سال 25 اپریل کو قتل کر دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/S.Ramany

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بنگلہ دیش کے کچھ ہم جنس پرستوں نے بتایا کہ ان کے بہت سے ساتھیوں نے اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کے باعث اپنے فیس بک اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں، کچھ اپنے مقامی اور غیر ملکی دوستوں کی مدد سے محفوظ ٹھکانوں پر چھپ گئے ہیں اور کچھ اپنا دفاع کرنے کی تربیت لے رہے ہیں۔ بہت سے گنجان آباد ڈھاکہ سے دور دیہی علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔

ایک نوجوان ہم جنس پرست نے روئٹرز کو بتایا، ’’مجھے ہر وقت خوف رہتا ہے کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے، کوئی بھی شخص مجھے چاقو سے وار کر کے مار ڈالے گا کیونکہ میں آزاد خیال ہوں۔‘‘ اس حوالے سے خوف اس قدر پھیل گیا ہے کہ زالہاز منان کے ہمسائے، اس کے گلی کے باہر چوکیدار حتیٰ کہ کوئی بھی اس کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔ یہاں تک کے اس کا کوئی دوست بھی زالہاز منان کی قبر پر جانے سے ڈرتا ہے۔

فروری 2015 سے اب تک 23 افراد کوچاقوؤں اور چھروں سے قتل کیا جا چکا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ اور داعش کی جانب سے لی گئی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ یہ دونوں شدت پسند تنظیمیں بنگلہ دیش میں اپنی دہشت پھیلانے کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں اور عالمی سطح پر زیادہ سے زيادہ افراد کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

Bangladesch neuer Angriff auf säkulare Verleger und Autoren Ahmedur Rashid Chowdhury Tutul
آزاد خیال مصنف راشد چوہدری پر بھی شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

ہم جنس پرستوں کے ایک سرگرم کارکن شاہ انور اسلام نے روئٹرز کو بتایا کہ منان کی موت کے کچھ روز بعد اس کی والدہ کے خلاف بھی انٹرنیٹ پر دھمکی آمیز پیغامات دیکھنے میں آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے خلاف اتنی نفرت پائی جاتی ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے خاندان کے افراد کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ایک اور نوجوان نے کہا، ’’ قانون کی نظر میں ہم مجرم، مذہب کی نظر میں گناہ گار اور معاشرے کی نظر میں ہم بدکار لوگ ہیں۔‘‘

بنگلہ دیش میں ہم جنس پرستوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے حوالے سے ملکی وزیر داخلہ نے کہا،’’ میری التجا ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محتاط رہیں، یہ ایک مذہبی معاشرہ ہے، اس بات کا احترام کریں۔‘‘