بنگلہ دیش کے ’ہم جنس پرست‘ خطرے میں
18 مئی 2016''اپنے لیے دعا مانگ لو، خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو، اب تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا،‘‘ یہ تحریر ایک خط کی صورت میں بنگلہ دیش کے ایک ہم جنس پرست شخص کو موصول ہوئی تھی۔ کچھ ہی روز قبل اس نوجوان کا ایک قریبی دوست، جو ہم جنس پرستوں کے حقوق کا ایک سرگرم کارکن بھی تھا، شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔
مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد کو بنگلہ دیش میں نیچی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسلمان اکثریتی ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادی غیر قانونی ہے اور اسے ایک بہت ہی معیوب فعل تصور کیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش ميں مختلف جنسی رجحانات رکھنے والے افراد کے لیے بنائے گئے پہلے جریدے کے 35 سالہ مدیر زالہاز منان اور محبوب ربی کو بنگلہ دیشی دارلحکومت ڈھاکہ میں اسی سال 25 اپریل کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی تھی۔ یہ دہشت گرد تنظيم اس سے قبل یونیورسٹی پروفیسرز، بلاگرز اور ایسے افراد کو قتل کر چکی ہے جو مذہب اسلام کے خلاف اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے تھے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بنگلہ دیش کے کچھ ہم جنس پرستوں نے بتایا کہ ان کے بہت سے ساتھیوں نے اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات کے باعث اپنے فیس بک اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں، کچھ اپنے مقامی اور غیر ملکی دوستوں کی مدد سے محفوظ ٹھکانوں پر چھپ گئے ہیں اور کچھ اپنا دفاع کرنے کی تربیت لے رہے ہیں۔ بہت سے گنجان آباد ڈھاکہ سے دور دیہی علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔
ایک نوجوان ہم جنس پرست نے روئٹرز کو بتایا، ’’مجھے ہر وقت خوف رہتا ہے کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے، کوئی بھی شخص مجھے چاقو سے وار کر کے مار ڈالے گا کیونکہ میں آزاد خیال ہوں۔‘‘ اس حوالے سے خوف اس قدر پھیل گیا ہے کہ زالہاز منان کے ہمسائے، اس کے گلی کے باہر چوکیدار حتیٰ کہ کوئی بھی اس کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ ہے۔ یہاں تک کے اس کا کوئی دوست بھی زالہاز منان کی قبر پر جانے سے ڈرتا ہے۔
فروری 2015 سے اب تک 23 افراد کوچاقوؤں اور چھروں سے قتل کیا جا چکا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری القاعدہ اور داعش کی جانب سے لی گئی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ یہ دونوں شدت پسند تنظیمیں بنگلہ دیش میں اپنی دہشت پھیلانے کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں اور عالمی سطح پر زیادہ سے زيادہ افراد کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
ہم جنس پرستوں کے ایک سرگرم کارکن شاہ انور اسلام نے روئٹرز کو بتایا کہ منان کی موت کے کچھ روز بعد اس کی والدہ کے خلاف بھی انٹرنیٹ پر دھمکی آمیز پیغامات دیکھنے میں آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے خلاف اتنی نفرت پائی جاتی ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمارے خاندان کے افراد کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ ایک اور نوجوان نے کہا، ’’ قانون کی نظر میں ہم مجرم، مذہب کی نظر میں گناہ گار اور معاشرے کی نظر میں ہم بدکار لوگ ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش میں ہم جنس پرستوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے حوالے سے ملکی وزیر داخلہ نے کہا،’’ میری التجا ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محتاط رہیں، یہ ایک مذہبی معاشرہ ہے، اس بات کا احترام کریں۔‘‘