بن لادن کی ہلاکت: پاکستانیوں کا ردعمل حیرت سے عبارت
2 مئی 2011زیادہ تر لوگ ابھی تک اس بارے میں شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے آپریشن کے پیچھے اصل تفصیلات کیا ہیں؟
کیا اسامہ بن لادن کو آپریشن ایبٹ آباد ہی کے دوران ہلاک کیا گیا؟ بن لادن کی ہلاکت میں پاکستانی حکومت کا کردار کیا ہے؟ القاعدہ کے اس رہنما کی موت کے بعد پاکستان کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا ہو گا اور آیا پاکستانی
حکومت اصل حقائق عوام کے سامنے لانے سے گریز کر رہی ہے؟
پاکستان میں اس وقت عوامی سطح پر اٹھائے جانے والے ان تمام سوالات کے جواب میں پاکستانی فوج اور حکومت کی مسلسل خاموشی عوامی شبہات میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ بعض سادہ لوح باشندے ابھی تک شواہد طلب کرتے ہوئےیہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اسامہ بن لادن سچ مچ مر گیا ہےیا یہ ماضی کی طرح ہی کا کوئی اعلان ہے۔
ملک کا مذہبی طبقہ اس وقت سکتے کے عالم میں ہے جبکہ عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس واقعے کو حکومتی پالیسی کے برخلاف پاکستانی حکومت کی نہیں بلکہ امریکہ کی فتح سمجھہ رہے ہیں۔
ملک میں ممکنہ ردعمل کے نتیجے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکی قونصل خانوں سمیت اہم عمارتوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں پولیس کا گشت بھی شروع ہو گیا ہے۔
کالعدم مذہبی عسکری جماعتوں نے اس واقعے کے بعد چپ سادھ لی ہے جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے سب سے بڑے مبینہ ٹارگٹ کے خاتمے کے بعد اب دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے امریکی افواج کو خطے سے نکل جانا چاہیے اور پاکستانی حکومت کو اپنی پالیسی دوبارہ ترتیب دینا چاہیے۔
تحریک انصاف پاکستان کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد اب پاکستان پر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے حوالے سے امریکی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔
سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ آپریشن ایبٹ آباد پاکستانی فورسز کو کرنا چاہیے تھا، امریکی افواج کا آپریشن ملکی خود مختاری کے منافی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اس واقعے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ آپریشن کس نے کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما بھی اس سلسلے میں بات کرنے سے فی الحال گریز کر رہے ہیں۔
معروف تجزیہ نگار سلیم بخاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی دفتر خارجہ کا یہ بیان کون مانے گا کہ اس آپریشن میں صرف امریکی افواج نے حصہ لیا۔ ان کے مطابق، ’’اگر اس معاملے میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہے تو پاکستان کے حساس ادارے اور حکمران طبقہ صحیح صورت حال عوام کے سامنے لانے سے کیوں کترا رہے ہیں‘‘۔ ان کے بقول یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں ہونے والے واقعے کی خبریں امریکہ سے مل رہی ہیں اور پاکستانی حکومت چپ سادھے بیٹھی ہے۔
معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید کہتے ہیں کہ آپریشن ایبٹ آباد پاکستان کی طرف سے فراہم کی جانے والی خفیہ معلومات کے نتیجے میں ہوا اور پاکستان پہلے سےکیے گئے ایک معاہدے کے مطابق اسامہ بن لادن کے حوالے سے کیے جانے والے کسی بھی آپریشن میں مدد کا پابند تھا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں