بڑھتے ہوئے حملے: افغان پالیسی پر نظر ثانی کی اپیل
6 دسمبر 2022واضح رہے کہ اس حوالے سے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا کل بروز پیر ایک مشاورتی اجلاس بھی ہوا، جس میں پاکستان اور افغانستان کے ماہرین کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے سکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر پاکستان کو چاہیے کہ وہ کابل کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
سابق مشیر برائے قومی سلامتی جنرل ناصر خان جنجوعہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستانکے تعلقات کے درمیان ٹی ٹی پی ایک بگاڑ کے طور پر ابھری ہے، جس کی وجہ سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں سرد مہری آ سکتی ہے اور یہ کہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’ہم کنفیوژن کا شکار ہیں‘
یہ صرف سکیورٹی ماہرین کا ہی نقطہ نظر نہیں بلکہ پاکستان میں خارجہ امور کے کئی ماہرین اور بین الاقوامی تعلقات کے مبصرین بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔
خارجہ امور کے ماہر اور سابق پاکستانی سفیر برائے بھارت عبدالباسط خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے اور ہم کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ہم نے افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، جس پر طالبان کو نہ صرف حیرانی ہوئی بلکہ تشویش بھی ہوئی ہے۔ ہم نے اس عمل کو علاقے کے دوسرے ممالک کے اتفاق رائے سے جوڑ دیا ہے۔ جو میرے خیال میں دانشمندانہ نہیں ہے۔‘‘
افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال، کابل اور اسلام آباد میں بڑھتے فاصلے
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ یہ کنفیوژن اس لیے ہے کیونکہ اسلام آباد نے معاہدہ دوحہ کے وقت پہلے سے تمام امور طے نہیں کیے۔ ''ہمیں طالبان کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے پہلے سے ہی کام کرنا چاہیے تھا۔ طالبان یہ امید کر رہے تھے کہ نہ صرف اسلام آباد انہیں تسلیم کرے گا بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی کابل حکومت کو تسلیم کروانے میں مدد کرے گا۔ نہ ہم ان کی اس سلسلے میں مدد کر سکے اور نہ اسلامی کانفرنس یا کسی اور ذریعے سے ان کو مالی امداد دلوا سکے۔‘‘
دباؤ کے طریقے
عبدالباسط خان کا کہنا تھا کہ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ''افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دے کر اور بھارت سے بہتر تعلقات استوار کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ پاکستان پر طالبان کی قدامت پرست پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ اور بین الاقوامی دنیا کا دباؤ ہے اور پاکستان بھی بعض معاملات میں افغان طالبان پر دباو ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔‘‘
انتخابات کی حمایت
کچھ مبصرین کا دعوٰی ہے کہ صرف جمہوری نظام پر امن انتقال اقتدار کو ممکن بناتا ہے اور کیونکہ افغانستان میں جمہوری نظام جڑیں نہیں پکڑ سکا، وہاں انتشار جاری ہے۔ ایریا اسٹڈی سینٹر پشاور یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان افغانستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے، تو اسے سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا، وہ ایک آزاد ملک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستانی اور افغان طالبان ایک ہی ہیں۔ دونوں نظریاتی بھائی ہیں اور پاکستانیطالبان ملا عمر کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں، جب کہ انہوں نے ملا ہیبت اللہ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی ہوئی ہے۔ تسیرا نکتہ پاکستان کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ افغانستان میں استحکام طالبان کی حمایت سے نہیں بلکہ صاف اور شفاف انتخابات سے آئے گا۔‘‘
سرفراز خان کا دعوی تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کی افغان پالیسی کا مطمح نظر یہ لگتا ہے کہ افغانستان میں اسی طرح انتشار اور بے چینی رہے۔ ''لیکن اگر افغانستان میں ایسا ہی انتشار رہا تو اس کے پاکستان پر خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔‘‘
علاقائی حل کی پالیسی
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے اس مسئلہ کا کوئی علاقائی حل نکالنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے ماضی میں کوششیں بھی کی گئی تھیں۔ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین، روس، وسطی ایشیا اور ایران کے ساتھ مل کر افغانستان میں استحکام لانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف افغانستان کو بلکہ پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔‘‘
بھارت کا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر بالواسطہ حملہ
سخت پالیسی کی ضرورت
خیال رہے کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر خراب ہو رہی ہے اور مبصرین اس کی ایک وجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو قرار دے رہے ہیں، جس نے حال ہی میں جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انٹرنیشل اسلامک یوینورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ افغانوں نے کبھی بھی پاکستان کو اعتماد کے ساتھ نہیں دیکھا اور انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے اخلاص پر شک کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''طالبان بھی پاکستان کے اخلاص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ اگر طالبان مذہبی اقلیتوں کی حقوق کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے اور خواتین کے حقوق کو پامال کرینگے، تو اسلام آباد ان کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بھی ایک واضح پیغام جانا چاہیے۔‘‘
پاکستان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد اسلام آباد کو کچھ تو فائدہ ہوا ہے لیکن اس کی ساری توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ معروف صحافی سمیع یوسفزئی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اشرف غنی اور دوسری حکومتوں سے پاکستان کے تعلقات ڈیورںڈ لائن اور دوسرے مسائل پر تعلقات خراب تھے۔ اس کے علاوہ اشرف غنی اور دوسرے رہنما بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے خلاف بھی باتیں کرتے تھے لیکن اب طالبان سے سرحدی مسائل پر بھی پاکستان کو دقت ہے اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے بھی مشکلات ہیں۔‘‘
سمیع یوسفزئی کے مطابق اسلام آباد کو طالبان سے ڈیل کرنے میں یہ بھی پریشانی آرہی ہے کہ طالبان کوئی سیاسی قوت نہیں ہیں بلکہ ایک جنگجو فورس ہیں۔ ''تو اسلام آباد میں اس حوالے سے خاصی پریشانی ہے اور پاکستان افغانستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنا پا رہا۔‘‘
افغانستان کی فراموش شدہ کہانیوں پر بنائی گئی فلمیں