بگ بینگ کے بعد کا سب سے بڑا دھماکا
28 فروری 2020جمعرات کے روز سائنس دانوں نے بتایا کہ زمین سے 390 ملین نوری سال کے فاصلے پر کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ میں یہ بہت بڑا دھماکا ریکارڈ کیا گیا، جس کا منبع ایک بلیک ہول تھا۔
آئن سٹائن کا ’بے حد بڑے بلیک ہول‘ کا نظریہ سچ ثابت ہو گیا
’’کیا آپ بلیک ہول کے اندر اترنا چاہتے ہیں‘‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ دھماکا اتنا بڑا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے جھماکے میں 15 ملکی وے (ہماری کہکشاں) سما سکتی ہیں۔ واشنگٹن میں قائم ناول ریسرچ لیبارٹری سے وابستہ اور اس دھماکے سے متعلق تازہ سائنسی رپورٹ کی مرکزی مصنف سیمونا گیاکِنتُکی کے مطابق، ''یہ دھماکا اتنا بڑا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے گرم گیس کے غبارے میں ہماری کہکشاں جیسی پندرہ کہکشائیں سما سکتی ہیں۔ اب تک ریکارڈ کیے جانے والے جھماکوں سے یہ پانچ گنا بڑا تھا۔‘‘
ماہرینِ فلکیات نے اس دھماکے کے مشاہدے کے لیے ناسا کی چندرا ایکس رے رصدگاہ کا استعمال کیا، جب کہ اس کے لیے یورپی خلائی رصد گاہ اور متعدد دیگر زمینی دوربینوں کو بھی باہم استعمال کیا گیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ دھماکا ہزاروں کہکشاؤں کے جھرمٹ اوفیوکس کے مرکز میں ایک بے حد بڑے بلیک ہول کی وجہ سے پیدا ہوا۔
واضح رہے کہ بلیک ہول فقط مادے کو اپنے اندر ہی جانب نہیں کھینچتے بلکہ جیٹس کی صورت میں مادے اور توانائی کا اخراج بھی کرتے ہیں۔ اس عظیم دھماکے کا پہلا اشارہ سن 2016 میں ملا تھا۔
ناسا کی رصدگاہ چندرا سے لی گئی تصاویر سے واضح ہے کہ افیوکس کہکشانی جھرمٹ میں غیرمعمولی جھکاؤ دکھائی دیا تاہم توانائی کے اس حد تک کے اخراج کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ابتدا میں سائنس دانوں نے اس خیال کو رد کر دیا تھا کہ یہ نجم فشانی (Steller erruption) ہو سکتی ہے۔ بعد میں دو دیگر خلائی رصد گاہوں اور آسٹریلیا اور بھارت میں موجود ریڈیو دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ بڑا سیاہ دھبا اور گیسی جھکاؤ اصل میں بہت بڑے دھماکے کا عکاس تھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب بلیک ہول ایک مرتبہ پھر خاموش ہو چکا ہے اور اب اس سے مزید جیٹ اسٹریمز باہر نہیں آ رہی ہیں۔