کشمیر میں سیاحت تباہی کے دہانے پر
29 جون 2020یورپی ممالک کے علاوہ برطانیہ، امریکا، اسرائیل، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام، سنگاپور، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ملکوں سے سیاح کشمیر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ ہوٹلوں کے کمرے خالی پڑے ہیں، مشہور ڈل جھیل میں کشتیوں میں سیاح نہیں ہیں اور گلمرگ اور پہلگام کی وادیوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔
دارالحکومت سری نگر میں مقیم فیض بخشی ہوٹل شنگریلا کے مالک ہیں اور ماضی قریب میں کشمیر چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریز کے سیکریٹری جنرل بھی رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’’کشمیر میں گزشتہ برس اگست سے مکمل طور پر تباہی مچی ہوئی ہے۔‘‘
مزید پڑھیے: نئی دہلی سے کشمیر تک سفر کی کہانی
جب وادی میں سیاحت کا شعبہ اپنے عروج پر ہوتا ہے تو ان کے ہوٹل کے تقریباً 80 کمروں میں سے ایک بھی خالی نہیں رہتا ہے۔ بخشی کے بقول آج یہ حال ہے کہ ’’سارے کمرے کھلے پڑے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’سیاحت کے شعبے کا بہت ہی برا حال ہے۔ اور یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ حالات کب بہتر ہوں گے۔‘‘ ٹورزم سے وابستہ بقیہ افراد کی کہانی بھی بخشی کی کہانی سے مختلف نہیں ہے۔
اس وقت کووِڈ انیس کی وبا کے باعث بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن محکمہ سیاحت کے دستاویزات کے مطابق کشمیر میں سیاحت کے شعبے کو سب سے بڑا دھچکہ گزشتہ سال اگست سے پیدا شدہ صورتحال سے پہنچا ہے۔
سن دو ہزار انیس کے پہلے چار ماہ یعنی جنوری سے اپریل تک تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا تھا جبکہ دو ہزار اٹھارہ کے انہی چار ماہ میں وادی کا دورہ کرنے والے سیاحوں کی تعداد ایک لاکھ پینسٹہھ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ تاہم رواں سال کے پہلے چار ماہ میں صرف سترہ ہزار چھ سو بیاسی سیاح کشمیر آئے ہیں۔
جب سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے سے حالات قدرے معمول کے ہوتے ہیں تو تقریباً چھ لاکھ سیاح اور چار سے پانچ لاکھ امرناتھ زائرین کشمیر کا دورہ کرتے ہیں۔ یعنی ایک عام ٹورسٹ سیزن میں دس تا بارہ لاکھ سیاح کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ برس اگست سے اب تک یہ تعداد بیس ہزار سے بھی کم ہے۔
کشمیر کے محکمہ سیاحت کے مطابق وادی کی آبادی کا تقریباً تیس فی صد حصہ سیاحت کے شعبے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنے روزگار کے لیے منحصر ہے۔ ان میں ہوٹل مالکان، ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ مالکان، شکارا والے، گلمرگ، پہلگام، سنمرگ اور یوسمرگ کے خوبصورت سبزہ زاروں میں گھوڑے والے، ٹیکسی والے، اور دودھ پتھری، کوکرناگ، ویری ناگ، شالیمار اور نشاط باغات اور دیگر صحت افزا مقامات پر مختلف شعبہء جات سے وابسطہ افراد اپنا روزگار سیاحت کے ذریعے ہی کماتے ہیں۔
ٹورزم کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’پچھلے اگست کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات نے کشمیر میں سیاحت کے شعبے کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: کشمیری خاتون صحافی کے لیے 2020 کا فوٹوجرنلزم ایوارڈ
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاحت کے شعبے کو اکثر کشمیری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے تاہم یہ تاثر حقائق پر مبنی نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر کے مجموعی قومی پیداوار میں سیاحت صرف چھ تا سات فی صد کا تعاون کرتی ہے جبکہ باغبانی، جس میں سیب کی کاشت سر فہرست ہے، زراعت اور زعفران، اور دستکاری جیسے شعبوں پر آبادی کے بیشتر حصے کا دارومدار ہے۔ علاوہ ازیں کشمیر وادی کے تقریباً اسی لاکھ افراد میں سے پانچ لاکھ سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔
گلزار احمد ملک ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں اور قدرے معمول کے حالات میں وہ اپنی گاڑی میں سیاحوں کو مختلف صحت افزاء مقامات پر لے جاتے ہیں اور اس سے حاصل شدہ کمائی سے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن پچھلے دس ماہ سے وہ بیکار پڑے ہیں۔
نا مساعد حالات کے باعث اپنے تین بچوں کی تعلیم کا خرچہ اور اپنی فیملی کے باقی اخراجات اٹھانا ان کے لیے بہت مشکل بن گیا تھا۔ ملک کے بقول، ’’اس لیے جب بھی موقع ملا میں نے مزدوری سے اپنے عیال کے لیے خوراک کا انتظام کیا۔ لیکن دو گاڑیاں قرض پر لی تھیں اور اب ایک بیچ ڈالی۔‘‘
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق صرف پچھلے اگست سے نومبر تک کشمیری معیشت کو ابتر حالات کے باعث اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا جبکہ پانچ لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے فارغ ہوئے۔ چیمبر کے صدر شیخ عاشق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ’’کشمیر کی معاشی صنعت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘
چیمبر صدر نے بتایا کہ ’’معیشت تنزلی کا شکار ہے اور اگر پورے دس ماہ کے دوران ہوئے نقصان پر تفصیلی رپورٹ مرتب کی جائے تو اندازہ ہے کہ کشمیری معیشت کو پچاس تا ساٹھ ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ حکومتی مدد اور مالی پیکیج کی عدم موجودگی میں معیشت کا پٹری پر لوٹنا ناممکن ہے۔‘‘
در اصل متنازع جموں کشمیر میں گزشتہ برس جولائی کے اواخر میں یکے بعد دیگرے کئی سرکاری حکم نامے جاری کر دیے گئے۔ ایک حکم نامے کے تحت خطے میں اس وقت موجود بیرونی ممالک اور بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سیاحوں اور ہندوؤں کی مقدس امرناتھ یاترا پر آئے زائرین کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ فوری طور پر اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔
مزید پڑھیے: چین بھارت کشیدگی: کیا کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی ممکن ہے؟
سیاحوں اور زائرین کی واپسی کے بعد ہی پانچ اگست کو حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک متنازع فیصلے کے تحت جموں و کشمیر کی نہ صرف اندرونی خودمختاری ختم کردی بلکہ ریاست کے آئین اور پرچم کو کا لعدم کردینے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کو دو علٰیحدہ یونین ٹیریٹریوں میں تقسیم کر دیا۔
اس وقت لداخ خطے میں وادی گلوان اور مشہور پینگانگ جھیل کے مقام پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول یا حد متارکہ پر چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہیں جس سے حالات مزید ابتر ہوگئے ہیں اور ہر جانب بے چینی کا ماحول بنا ہوا ہے۔
شاید چین اور بھارت کے درمیان ممکنہ جنگ کے خدشات کے باعث ٹورزم سے وابستہ افراد نے سیاحت کی بحالی کی امیدیں فی الحال چھوڑ دی ہیں۔
کشمیر میں سن 2008 اور 2010ء میں بڑے پیمانے پر بھارت مخالف مظاہرے ہوئے تھے جس سے مہینوں تک کاروباری اور سیاحتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکررہ گئی تھیں۔ بعد ازاں سن 2014 میں تباہ کن سیلاب کے نتجے میں مہینوں تک عام زندگی متاثر رہی اور جولائی 2016ء میں کشمیری عسکریت پسندوں کے ایک نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی دستوں کے ساتھ لڑائی میں ہلاکت کے بعد چار ماہ تک معمولات زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئے جبکہ گزشتہ سال اگست سے کوئی خاطر خواہ کاروباری، تعلیمی یا سیاحتی سرگرمیاں نہیں ہوئی ہیں۔