’بھارتی فوجی بوٹوں کی چاپ افغان سرزمین پر سنائی نہیں دے گی‘
26 ستمبر 2017امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے کابینہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے نئی دہلی پہنچے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں امریکی وزیر دفاع افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال، فوجی ٹیکنالوجی اور جنگی طیاروں کی ممکنہ ڈیل کے حوالے سے مذاکرات کریں گے۔
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس سے ملاقات کرنے کے بعد بھارتی خاتون وزیر دفاع نرمالا سیتھارامن کا کہنا تھا کہ بھارت افغان اہلکاروں کی تربیت میں اضافہ کرنے اور بنیادی ڈھانچے کے اہم منصوبوں میں مدد جاری رکھنے پر تیار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں میں بھارت افغانستان میں ایک طویل عرصے سے مصروف ہے اور ضرورت پڑنے پر اس میں وسعت لائی جا سکتی ہے لیکن ’’ہم نے واضح کر دیا ہے کہ افغان سر زمین پر بھارتی فوجی قدم نہیں رکھیں گے۔‘‘
منگل کی صبح امریکی وزیر دفاع نے سب سے پہلی ملاقات بھارت میں امریکی سفارت کاروں کے ساتھ کی اور اس کے بعد نئی دہلی حکومت کی طرف سے ان کا فوجی اعزار کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ امریکی وزیر دفاع آج ہی نریندر مودی اور اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقاتیں کریں گے۔ اجیت ڈوول پاکستان میں بھی جاسوس کے طور پر کئی برس قیام کر چکے ہیں اور بھارت کی موجودہ سکیورٹی پالیسیوں میں ان کا انتہائی اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرو رسوخ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ فوجی تعلقات مضبوط بنانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔
کیا بھارت کی افغانستان سے دوستی اس ملک کے لیے خطرہ ہے؟
امریکی حکام کے بھارت پہنچنے سے پہلے امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ’’امریکا بھارت کو ایک قابل قدر اور مؤثر ساتھی کے طور پر دیکھتا ہے۔ ہمارے باہمی دلچسپی کے وسیع مفادات جنوبی ایشیا سے بھی آگے ہیں۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اس دورے میں امریکی وزیر دفاع اس بات پر بات چیت کریں گے کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کس طرح دونوں ملک مل کر کام کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر نے بھارت سے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔ بھارت سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب امریکا نے بھی افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں اس کے روایتی حریف ملک بھارت کا اثرو رسوخ مزید بڑھے۔ پاکستانی حکام متعدد مرتبہ نئی دہلی حکومت پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ٹرمپ کی افغان پالیسی، جنوبی ایشیا مزید غیر مستحکم ہو جائے گا؟
بھارت ابھی تک افغانستان میں سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی لائنوں، ڈیم بنانے، تعلیم اور صحت عامہ کے شعبے میں تین بلین ڈالرز سے زائد خرچ کر چکا ہے لیکن اب افغانستان میں بھارت کے فوجی کردار کے حوالے سے بات چیت کی جا رہی ہے۔ پینٹاگون کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی وزیر دفاع اس حوالے سے بات چیت کریں گے کہ ’دوسرے کس طریقے‘ سے بھارت افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنا سکتا ہے۔
نئی دہلی کے چند حکومتی عہدیداروں کے مطابق بھارت انسداد دہشت گردی کے لیے افغان فوجیوں کو تربیت فراہم کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی وزیر دفاع دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے اس ملک کو ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے کئی ایک معاہدوں پر بھی بات چیت کریں گے۔ بھارت امریکا سے ڈرون، جنگی طیارے اور آبدوزیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں ملک انڈو پیسفک میں چینی کے مدمقابل سمندری سکیورٹی میں بھی اضافہ چاہتے ہیں۔