’بھارت اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘
26 جنوری 2015بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خصوصی دعوت پر آئے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے پیر 26 جنوری کو نئی دہلی منعقدہ بھارتی فوج کے پریڈ کا معائنہ کیا۔اوباما پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی ہے۔ اپنی فوجی طاقت کا پُر زور مظاہرہ کرنے والے نریندر مودی اور امریکی صدر باراک اوباما کی اخبار میل ٹو ڈے کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والی تاریخی تصویر میں دونوں لیڈر گرمجوشی سے بغلگیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ امریکا اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے آغاز کا پتہ دی رہی ہے۔
صدر اوباما نے نریندر مودی کے ساتھ مل کر فوجی پریڈ دیکھی۔ یہ پریڈ برطانوی نو آبادیاتی دور سے چلے آ رہی اُس وسیع و عریض شاہراہ پر منعقد ہوئی جو صدارتی محل کو مشہور زمانہ انڈیا گیٹ کے ساتھ ملاتی ہے۔ پیر کے روز یوم جمہوریہ کے موقع پر موسم کی خرابی اور بارش کے باوجود اوباما کے دورے کی وجہ سے نئی دہلی کی شاہراہوں کی رونق میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور شائقین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل کر اس صورت حال کو دلچسپی سے دیکھتے رہے۔
انسداد دہشت گردی کا ایک اہم ساتھی
باراک اوباما کے دورہ بھارت کے موقع پر وائٹ ہاؤس سے ایک بیان جای کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو بھارت پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ گلوبل سکیورٹی معاملات میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ امریکا کی قومی سلامتی کے نائب مشیر بن روہڈز کے بقول، " دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت اپنی فورسز کو گراؤنڈ پر تعینات کرنے کے بجائے غالباً شام اور عراق میں سرگرم انتہا پسند گروپ آئی ایس کی طرف جہادیوں اور امدادی رقوم کے بہاؤ سے متعلق خفیہ معلومات پر توجہ دینے میں معاونت کر سکتا ہے" ۔
اہم معاہدے
امریکی صدر باراک اوباما اتوار کو نئی دہلی پہنچے تھے۔ اسی دن دونوں ممالک نے سول جوہری معاہدے کے ضمن میں پیش رفت کی، جس کے تحت اب امریکی کمپنیاں بھارت کو غیرفوجی جوہری ٹیکنالوجی فراہم کریں گی۔ امریکا ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور تجارتی طاقت اور اثر و رسوخ کے مقابلے میں بھارت کو اوپر لانا چاہتا ہے تاہم کچھ عرصے سے بھارت کے سست روی کی شکار اقتصادی اصلاحات اور متعدد بین الاقوامی امور میں نئی دہلی کا واشنگٹن کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے واشنگٹن میں بھارت کے لیے معمولی سے سردمہری بھی پیدا ہوئی۔
بیجنگ متعینہ سابق امریکی سفیر جان ہنٹسمین اور ساؤتھ ایٹیا سینٹر کے قائم مقام ڈائریکٹر بھارت گوپالسوامی نے رائٹرز کے لیے ایک مشترکہ کالم میں لکھا ہے،" امریکا کوسب سے زیادہ کوشش اس بات کی کرنی چاہیے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت میں توازن قائم کرنے کے لیے بھارت کو مختلف جمہوری ممالک کے ساتھ ایک ایسے اتحاد قاسم کرنے کے لیے قائل کرے جو بیجنگ حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کا مقابلہ کر سکے" ۔
بھارت دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے تاہم اس نے اب تک اسلامک اسٹیٹ آئی ایس کے پھیلاؤ کے خلاف عالمی جنگ میں کُھل کر حصہ نہیں لیا ہے۔ بھارتی مسلمان دہشت گردانہ عزائم کے حامل گروپوں کو رد کرتے چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے انتہاپسندی سے دوری بھی اختیار کی ہوسی ہے۔ بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک صرف چار بھارتی مسلمانوں نے سُنی انتہا پسند جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔