بھارت : ’انا مہم‘ تعطل برقرار، کُل جماعتی میٹنگ طلب
23 اگست 2011یو ں تو بدعنوانی کے خاتمے کے لئے بھارت میں پچھلے ساٹھ برسوں کے دوران کئی تحریکیں چلائی گئیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کوئی ملک گیر تحریک بھارت کے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عوام کو اپنے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر جوڑنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی اور جے پرکاش نارائن کے بعد انا ہزارے ایسی پہلی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جن پر ملک بھر کے عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
پچھلے آٹھ دنوں سے دارالحکومت نئی دہلی میں جاری انا ہزارے کی اس مہم نے کانگریس پارٹی کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت کی نیند تو حرام کرہی دی ہے، اس نے دوسری تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی مصیبت میں ڈال دیا ہے اوربدعنوانی کے خلاف عوام کے رجحان اور جوش و خروش کو دیکھ کر وہ اپنی سیاسی بنیادیں بھی کھسکتی ہوئی محسوس کررہی ہیں۔ البتہ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انا ہزارے جس انداز میں اپنی تحریک چلا رہے ہیں اور پارلیمانی نظام کو نشانہ بنارہے ہیں وہ ملک کے پارلیمانی نظام کے لیے خطرناک ہے۔
اس دوران انا ہزارے کی مہم سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پیر کی شب کانگریس پارٹی کے کور گروپ کے رہنماؤں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اعلٰی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ آج منگل کو وزیر خزانہ پرنب مکھرجی، وزیر دفاع اے کے انٹونی اور وزیر داخلہ پی چدمبرم نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے صورت حال پر گفتگو کی۔
دوسری طرف ڈاکٹر سنگھ نے لوک پال پر پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ابھیشک منوسنگھوی سے بھی بات چیت کی۔ جب کہ وزیر قانون سلمان خورشید انا ہزارے ٹیم کے اہم رکن اروند کیجرے وال سے غیررسمی رابطہ میں ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت انا ہزارے ٹیم کی طرف سے پیش کیے گئے کچھ مطالبات پر عام رائے بنانا چاہتی ہے۔ حکومت نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ انا ہزارے کے بعض مطالبات تسلیم کیے جاسکتے ہیں اور سرکاری لوک پال بل میں کچھ ترامیم کی جاسکتی ہیں اور وزیر اعظم کو بھی لوک پال کے دائرے میں لانے پر غور کرسکتی ہے۔
اس سب کے باوجود انا ہزارے کی ٹیم نے ایک بار پھر زور دے کر کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ بات چیت صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب اعتماد بحال کرنے کے پہلے قدم کے طور پر وہ لوک پال بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرے، ورنہ بھوک ہڑتال کا سلسلہ جار ی رہے گا۔ انا ہزارے نے آج منگل کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر 30 اگست تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے تو وہ 30 اگست سے پارلیمنٹ کے باہر دھرنے پر بیٹھ جائیں گے۔
خیال رہے کہ انا ہزارے سرکاری کنٹرول سے آزاد ایک ایسی اتھارٹی بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں جو تمام سرکاری ملازمین پر نگاہ رکھے گی، جسے ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کی تفتیش کرنے اور سزا دینے کابھی اختیار ہوگا۔ کانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتو ں کا خیال ہے کہ اس طرح کی کوئی کوشش ملک میں آمرانہ رجحان کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت نے حالانکہ پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں لوک پال بل کا مسودہ پیش کیا ہے، جو حکومت کے زیر کنٹرول ایک ادارہ ہوگا ۔ اناہزارے کا بنیادی اعتراض اسی بات پر ہے وہ لوک پال کو حکومت سے پوری طرح آزاد رکھا جائے۔
اسی دوران بدعنوانی اور لوک پال کے معاملے پر آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زبردست ہنگامہ ہوا، جس کی وجہ سے دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کرنا پڑی۔ اپوزیشن بی جے پی کی رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر سشما سوراج نے کہا کہ ملک میں ایک کے بعد ایک بدعنوانی کے معاملے سامنے آرہے ہیں جس سے عام لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا لوک پال کا مسودہ غیرمؤثر ہے اور اس سے بدعنوانی پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: افسر اعوان