انا ہزارے کی تحریک کے باعث حکومت دباؤ میں
22 اگست 2011اختتام ہفتہ پر دونوں فریقوں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں مصالحت کی کافی زیادہ گنجائش موجود ہے۔
انا ہزارے کے ساتھ کام کرنے والی سابق پولیس افسر اور بدعنوانی کے خلاف تحریک کی معروف سرگرم کارکن کرن بیدی نے کہا، ’’حکومت نے ہمیں تین صفحات پر مشتمل ایک بغیر دستخط شدہ مراسلہ بھیجا ہے، جس میں ان کا موقف واضح کیا گیا ہے‘‘۔
ذرائع ابلاغ کی خبروں میں بتایا گیا کہ حکومت نے بحران کے حل کے لیے مذاکرات کار نامزد کر دیے ہیں، تاہم کرن بیدی کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی ملاقات کی درخواست نہیں کی گئی۔ اگلے سال اہم ریاستی انتخابات اور ان کے بعد 2014 ء میں عام انتخابات ہوں گے اور حکومت چاہتی ہے کہ اس بحران کو جلد سے جلد حل کیا جائے۔
اتوار کو کم از کم پچاس ہزار افراد نے انا ہزارے کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور پیر کو دارالحکومت نئی دہلی میں تعطیل کے باوجود ہزاروں افراد جمع ہو گئے۔ انا ہزارے کا مطالبہ ہے کہ پارلیمان رواں ماہ کے اختتام تک انسداد بدعنوانی کا ایک سخت بل پاس کرے۔ انا ہزارے کی بھوک ہڑتال نے بالی ووڈ کے فلمی ستاروں سے لے کر عام آدمی تک پر اثر ڈالا ہے۔ بھارت کا متوسط طبقہ ہر جگہ عام رشوت اور بدعنوانی کے حالیہ اسکینڈلوں سے سخت نالاں ہے، جن میں کئی بڑے بڑے سیاست دان بھی ملوث ہیں۔
ہزارے کی ٹیم کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ان کی بھوک ہڑتال مرن برت نہیں ہے اور وہ پانی پی رہے ہیں۔ انا ہزارے ماضی میں بھی حکومتوں کے خلاف بھوک ہڑتالیں کرتے رہے ہیں۔
تاہم بعض سرگرم کارکن انا ہزارے کو نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جمہوری اداروں کو یرغمال بنانے کی روایت اچھی نہیں۔ ہزارے کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے شہری حقوق کی تنظیم نیشنل کمپین فار پیپلز رائٹ ٹو انفارمیشن نے کہاکہ وہ انسداد بدعنوانی کا اپنا بل پارلیمان میں پیش کرے گی۔
متعدد ادبی اعزازات حاصل کرنے والی بھارتی ناول نگار ارون دھتی رائے نے دی ہندو اخبار میں لکھا کہ اگرچہ انا ہزارے کے طریقے گاندھی جی والے ہیں مگر ان کے مطالبات یقیناﹰ اس طرح کے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہزارے کا مجوزہ بل ایک کالا قانون ہے، جس میں احتیاط سے منتخب کردہ بعض افراد ایک بہت بڑی افسر شاہی کے معاملات دیکھیں گے۔‘‘
حکومت کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے کانگریس پارٹی کے ایک رکن پارلیمان نے ہزارے کا بل غورکے لیے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
عمدہ حکمرانی کی خواہش مند بھارت کی شہری نسل کے لیے انا ہزارے کی تحریک ایک متحرک جمہوریت کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت حالیہ کچھ عرصے سے کئی اسکینڈلوں کی زد میں ہے، جس میں 39 ارب ڈالر کا ٹیلی کوم رشوت اسکینڈل بھی شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے بدعنوانی کا محتسب قائم کرنے کے بل کو انتہائی کمزور قرار دیتے ہوئے اس پر سخت نکتہ چینی کی گئی تھی کیونکہ اس میں وزیر اعظم اور موجودہ ججوں کو استثناء حاصل تھا۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بھارتی جنتا پارٹی جمعرات سے حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کر رہی ہے جبکہ بائیں بازو کی جماعتوں کا ایک اتحاد منگل کو قومی سطح پر احتجاج کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ