کولکتہ ہائیکورٹ کے جج کے خلاف قابل مواخذہ کی کارروائی
19 اگست 2011بھارت میں پہلی بار اعلیٰ عدالت یا ہائیکورٹ کے حاضر نوکری جج کے خلاف دستور کے تحت امپیچمنٹ یا قابل مواخذہ کی کارروائی پارلیمنٹ میں مکمل کرنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ کولکتہ ہائیکورٹ کے جج جسٹس سومترا سین کو ایوان بالا میں مالی کرپشن کا مرتکب قرار دیا گیا۔ انہیں اپنے عہدے کے غلط استعمال کے الزام کا بھی سامنا تھا۔
ایوان بالا کے 189 اراکین نے جج کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا جب کہ دوسرے 17 نے اس کی مخالفت میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ حکمران کانگریس کے اراکین کے ہمراہ اپوزیشن کی بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی جج کے خلاف ووٹ ڈالا۔
ایوان میں پیش کی گئی قرارداد پر دو روز تک بحث کی گئی۔ قرارداد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سیتا رام یچوری نے پیش کی تھی۔ اگر پارلیمنٹ کے ایوان زیرین یعنی لوک سبھا میں بھی قرارداد کی حمایت میں ووٹ ڈالے گئے تو جسٹس سین پہلے جج ہوں گے جنہیں ملازمت سے قابل مواخذہ کے بعد فارغ کردیا جائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ جج کی برخاستگی کی قرارداد کی حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت کا ہونا لازمی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں ہونے والی ووٹنگ پر کولکتہ ہائیکورٹ کے جج سومترا سین نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ ایوان بالا میں جاری بحث کے دوران جسٹس سومترا سین کو صفائی کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔ انہوں نے بدھ کے روز پارلیمنٹ میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی صحت سے انکار کرتے ہوئے اسے انصاف کے ساتھ ایک مذاق سے تعبیر کیا تھا۔ جسٹس سین کا مزید کہنا تھا کہ وہ بھارت کے سابق چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔
بھارت میں اس سے قبل سپریم کورٹ کے جج جسٹس وی راماسوامی کے خلاف بھی قابل مواخذہ کی تحریک سن 1993 میں پیش کی جا چکی ہے۔ وہ تحریک دوتہائی اکثریت نہ ہونے پر ناکام ہو گئی تھی۔ بعد میں جسٹس سوامی نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بھارت میں سماجی لیڈر انا ہزارے کی کرپشن ختم کرنے کی تحریک کے ساتھ جسٹس سومترا سین کے خلاف کرپشن الزامات کے تحت قابل مواخذہ کی کارروائی کو ایک اتفاق خیال کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ