بھارت اور سعودی عرب کے نئے تعلقات
1 مارچ 2010بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ ان دنوں سعودی عرب کے تاریخی دورے پر جو کہ اٹھائیس سال میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ ہے۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں کے مابین توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے سمیت خطے کی سیاسی اور سلامتی سے متعلق امور پر بات ہوئی۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے سلسلے کا آغاز 2006ء سے ہوا جب سعودی شاہ عبداللہ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔
حالیہ دورے کے دوران من موہن سنگھ نے سعودی دارالحکومت میں مختلف مواقع پر عالمی سیاست سے جڑے معاملات پر نئی دہلی کا مؤقف واضح کیا۔ پاکستان سے تعلقات کو بھارتی وزیر اعظم نے اسلام آباد حکومت کی دہشت گردی کے خلاف ’فیصلہ کن‘ کارروائیوں سے مشروط کیا، ایران کے تنازعے کے بذریعہ مذاکرات پر امن حل کی ضرورت کو اجاگر کیا جبکہ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو خطے میں امن کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ ریاض پہنچنے سے قبل من موہن نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل سے دفاعی سازوسامان کی خریداری کے باوجود نئی دہلی کا فلسطینی ریاست سے متعلق مؤقف نہیں بدلا۔
ان تمام سے بڑھ کر من موہن سنگھ کے دورہ ریاض کو بھارت کی توانائی سے متعلق بڑھتی ضروریات کے حوالے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ کے ساتھ ہوئی ملاقات میں من موہن نے توانائی کے شعبے میں ’اسٹریٹیجک‘ تعاون بڑھانے کی بات کی۔ بھارتی وزیر اعظم کے مطابق دونوں ممالک کو تیل خریدنے اور بیچنے کے تعلق سے آگے بڑھ کر طویل المدتی اور جامع شراکت داری کی جانب بڑھنا چاہیے۔
تیزی سے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن بھارت کو ملکی صنعت کا پہیہ چلانے کے لئے مزید توانائی کی ضرورت ہے جبکہ یورپ اور امریکہ میں تیل کی مانگ میں قدرے کمی کے بعد سعودی عرب بھی اپنے تیل کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔
سعودی عرب میں بھارتی سرمایہ کاری کا تخمینہ دو ارب ڈالر کے قریب ہے جس کے تحت پانچ سو مشترک منصوبوں پر کام جاری ہے۔ دو طرفہ تجارت کا اندازہ پچیس ارب ڈالر ہے جس کے تحت بھارت، ریاض سے تیل درآمد کرتا ہے جبکہ سعودی عرب کو مصالحے اور دیگر اشیاء برآمد کی جاتی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے مطابق نئی دہلی کی خواہش ہے کہ سعودی عرب بھارت میں زراعت، توانائی، تعمیرات اور ادویات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت عاطف بلوچ