بھارت اور چین سرحد پر امن و سکون بحال کرنے پر متفق
11 ستمبر 2020بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سرحد پر موجودہ صورت حال کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، دونوں ملکوں کو اپنی افواج فوراً واپس بلالینی چاہیے اور کشیدگی کم کرنی چاہیے۔
بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ژی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی میٹنگ میں شرکت کے لیے ان دنوں ماسکو میں ہیں۔ دونوں رہنماوں کے درمیان بات چیت کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے بات چیت کے دوران یہ واضح کردیا کہ وہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری کشیدگی کومزید بڑھانا نہیں چاہتا ہے اور چین کے تئیں بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور بھارت کا یہ بھی ماننا ہے کہ بھارت کے تئیں چین کی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چینی وزیر خارجہ نے میٹنگ میں کہا کہ چین اور بھارت کے تعلقات ایک بار پھر فیصلہ کن موڑ پرہیں لیکن جب تک دونوں فریق اپنے تعلقات کو صحیح سمیت میں آگے بڑھاتے رہیں گے تب تک کوئی پریشانی نہیں ہوگی اورایسا کوئی مسئلہ بھی نہیں پیش آئے گا جسے حل نہ کیا جاسکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”چین اور بھارت کے لیے اس وقت فوری ضرورت باہمی تعاون کی ہے نا کہ تصادم کی، باہمی اعتماد کی نا کہ شبہ کی۔ حالات جب بھی خراب ہوتے ہیں تو اس وقت مجموعی تعلقات میں استحکام اور باہمی اعتماد کو برقرار رکھنے کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔"
پانچ نکات
بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پانچ نکات پر اتفاق رائے ہوا۔ ان میں بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کے فروغ کے سلسلے میں دونو ں فریق رہنماوں کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے سے رہنمائی حاصل کرنے اور سرحد پر موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے کی بات شامل ہے۔ دونوں ملکوں نے افواج کے درمیان بات چیت جاری رکھنے، انہیں جلد از جلد اپنی اپنی پوزیشن پر لوٹ جانے اور ایک دوسرے سے مناسب دوری بنائے رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔
دونوں ملکوں نے سرحدی علاقے میں امن اور خیرسگالی برقرا ررکھنے،سرحدی معاملات کے حوالے سے تمام باہمی معاہدوں اور پروٹوکول پر عمل کرنے اور کشیدگی میں اضافہ کرنے والی کوئی کارروائی نہیں کرنے کا عہد کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے باہمی معاملات پر اسپیشل ریپرزینٹیٹیو میکانزم کے ذریعہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے اور سرحدی معاملات میں صلاح و مشورے اور رابطہ کے متعلق ورکنگ میکانزم کے تحت بات چیت جاری رکھنے سے اتفاق کیا اور کہا کہ جیسے جیسے کشیدگی کم ہوگی دونوں فریقین کو سرحدی علاقوں میں امن برقرا ررکھنے کے لیے باہمی اعتماد سازی کے اقدامات شروع کرنے چاہئیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان بھی ماسکو میں ایس سی او میٹنگ کے دوران ہی ملاقات ہوئی تھی۔
خدشات برقرار
تجزیہ کاروں نے دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی سطح پر ہونے والی بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کاکوئی ٹھوس اثر اسی وقت دیکھنے کو ملے گا جب لداخ میں چینی فوجی موجودہ پوزیشن سے پیچھے ہٹیں گے۔
بعض ماہرین نے اس بات پر تشویش بھی ظاہر کی ہے کہ دونوں فریقین میں سے کسی نے بھی ایل اے سی پر فوجی تصادم شروع ہونے سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
سرحدی تنازع پرانا مسئلہ
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ چین، بھارتی صوبے اروناچل پردیش سمیت تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کا دعوی ہے کہ چین نے اکسائی چن علاقے میں اس کے 38ہزارمربع کلومیٹر پر قبضہ کررکھا ہے۔ سرحد ی تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان ایک درجن سے زائد دور کی بات چیت ہوچکی ہے لیکن اب تک کوئی قابل ذکرپیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 1962میں باضابطہ جنگ ہوچکی ہے۔ جس میں بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ تازہ ترین سرحدی تنازعہ ایل اے سی پر 5مئی کو شروع ہوا جب دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان زبردست ہاتھاپائی ہوئی جس میں بھارت کے کم از کم بیس جوان ہلاک ہوگئے۔ چین نے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی ہے۔
دونوں ممالک حالیہ سرحدی کشیدگی کو حل کرنے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر مسلسل بات چیت کررہے ہیں لیکن اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ دونوں ممالک موجودہ صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی تھی لیکن بھارت اور چین دونوں نے اسے مسترد کردیا۔