بھارت میں عیسائی مخالف پر تشدد مذہبی فسادات
9 اکتوبر 2008بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعت ویشوا ہندو پریشد کے رہنماء سوامی سرس وتی کی ہلاکت کے بعد سے عیسائیوں کو سنگین مظالم کا نشانہ بنانےکا سلسلہ گذشتہ دو ماہ سے جاری ہے۔ سوامی کوانکی جماعت کے مطابق مبینہ طور پر عیسیائیوں نے قتل کیا ہے تاہم اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جبکہ ایک بھارتی ٹیلی ویژن چینل کے مطابق ماٴو نوازوں نے سوامی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔
ویشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت دیگر شدت پسند ہندو جماعتوں کا الزام ہے کہ عیسائی مبلغیبن یا مشنریز روپے اور دیگر مراعات کا لالچ دے کر ہندوٴوں کو زبردستی اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی بن جانے کی ترغیب دے رہے ہیں، تاہم عیسائی اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
بھارت کی چار ریاستوں کیریلا، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اڑیسہ میں جاری انتہا پسندی کے تازہ واقعات میں عیسائیوں کو زبردستی ہندو مذہب اختیار کرانے کے واقعات میں شدت آگئی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بے گھر کئے جانے والے بہت سے عیسائیوں کے وہ رشتہ دار جو تاحال انہی ریاستوں میں موجود ہیں اب گھروں پر ہندو مذہب کی علامت والے، نارنجی رنگ کا پرچم لہرانے پر مجبور ہیں تاکہ انکی جان و مال محفوظ رہیں۔
بھارتی ریاست اڑیسہ میں پچھلے تقریبا بیس سالوں میں عیسائی آبادی دو فیصد سے بڑھ کر دس فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ پورے بھارت میں عیسائیوں کی تعداد دو فیصد کے قریب ہے۔اڑیسہ کے ممتاز صحافی پراسانت پٹنائیک کے بقول ان فسادات سے قبل اڑیسہ میں انتہائی درجہ کی غربت کے باعث لوگوں کو لالچ دیکر عیسائیت اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی رہے ہے۔انکے مطابق عیسائیوں کو پر تشدد کاروائیوں کا نشانہ بنانے کے حالیہ واقعات ’اس سلسلے کا جواب ہیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں بھارت میں حالیہ مذہبی انتہا ء پسندی کا یہ خونریز سلسلہ ہندو سیاسی قیادت کے وجہ سےہے جبکہ بعض لوگ اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سستی قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے دہائیوں سے جاری پس پردہ لسانی اور زمینی تنا زعات کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
متاثرہ علاقوں سے اطلاعات ہیں کہ ہندو انتہا پسند تلوار اور کلہاڑیاں لیکر عیسائیوں کے گھروں میں داخل ہوکر انہیں مندر لے جاتے ہیں جہاں انکے سر کے بال مونڈ کر پوجا کروائی جاتی ہے اور پھر زبردستی ہندو بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
پولیس کے سابق انسپیکٹر جنرل اور اب مقامی ہندو سیاسی لیڈر کی ذمہ داریاں نبھانے والے اشوک ساہو کے مطابق عیسائی بے جا بات بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔انکے مطابق وہ عیسائی جو گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں واپس اپنے گھروں کو آسکتے ہیں صرف ایک شرط پر کہ چرچ کی جانب سے کوئی نئا تنازعہ کھڑا نہیں ہوگا۔انکا یہ بھی کہنا ہے کہ امن اور زبردستی مذہب تبدیل کرانا ایک ساتھ نہیں چل سکتا۔