1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر بالواسطہ حملہ

جاوید اختر، نئی دہلی
23 جون 2021

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اقو ام متحدہ سلامتی کونسل میں افغانستان کے حوالے سے بحث کے دوران پاکستان کا نام تو نہیں لیا تاہم یہ بالکل واضح تھا کہ ان کا اشارہ کس ملک کی جانب ہے۔

https://p.dw.com/p/3vPRz
Russland | Indischer Außenminister Subrahmanyam Jaishankar
تصویر: Russian Foreign Ministry/AFP

بھارت نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن  سے متعلق بحث کے دوران افغانستان میں سلامتی کی صورتحال اور ترقی کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کے لیے پاکستان کو بالواسطہ مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیاجانا چاہیے۔ بھارت نے جنگ زدہ اس ملک کے لیے مکمل ٹرانزٹ اختیارات دینے پر بھی زور دیا۔

تشدد کا خاتمہ ضروری ہے

بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے افغانستان میں خواتین، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں پر ہونے والے حملوں اور تشدد کے خاتمے کے لیے مستقل اور جامع جنگ بندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جنگ زدہ ملک میں حقیقی سیاسی مفاہمت کے لیے کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرے گا۔

جے شنکر کا کہنا تھا،”افغانستان میں دیرپا امن کے لیے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو فوراً ختم کرنا اور دہشت گردوں کے سپلائی چین کو پوری طرح منقطع کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے، اس میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی بھی شامل ہے۔"  ان کا بظاہر اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔

جے شنکر نے مزید کہا،”اس امر کو یقینی بنانا بھی یکساں طور پر اہم ہے کہ دہشت گرد گروپ دیگر ملکوں کو دھمکی دینے یا ان پر حملے کرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ناکرنے پائیں۔" انہوں نے کہا افغانستان میں دیر پا امن کے لیے  ضروری ہے کہ ملک کے اندر بھی امن قائم ہو اور اس کے اطراف کے ملکوں میں بھی امن قائم رہے۔

Indien Besuch Staatschef Afghanistan
تصویر: courtesy PIB, Gov. of India

ٹرانزٹ اختیار ملنے چاہییں

بھارت نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ افغانستان کی ترقی اور تعمیر نو کو یقینی بنانے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کرے۔

بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا،”افغانستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ بین الاقوامی برادری کو افغانستان پر نافذ مصنوعی ٹرانزٹ رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے کام کرنا چاہیے اور کسی رکاوٹ کے بغیر افغانستان میں پہنچنے کے لیے ٹرانزٹ حقوق کی ضمانت دینی چاہیے۔"

دراصل بھارت کی شکایت ہے کہ پاکستان کی رکاوٹوں کی وجہ سے بھارتی مصنوعات زمینی راستے سے افغانستان نہیں پہنچ پا رہیں جبکہ پاکستان نے افغانستان کی مصنوعات کو بھارت جانے کی اجازت دے رکھی ہے۔نئی دہلی نے ان رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے افغانستان اور بھارت کے درمیان کئی فضائی تجارتی کوریڈور شروع کر دیے ہیں اور ایران کی چا بہار بندرگاہ پر بھی اسی مقصد  کے لیے سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

تشدد میں اضافے پر تشویش

بھارتی نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں تشدد کی لہر میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ بات واضح ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے باوجود تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔

انہوں نے کہا،”اس کے برخلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص یکم مئی کے بعد سے۔ ملک میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں، طالبات، افغان سکیورٹی فورسز، علماء، اہم عہدوں پر فائز خواتین، صحافیوں، حقوق انسانی کے کارکنوں اور نوجوانوں کو نشانہ بنا کر حملے کیے جارہے ہیں۔"

Katar Taliban Friedensgespräche
تصویر: Ibraheem al Omari/REUTERS

طالبان کے ساتھ رابطے کی تصدیق

دریں اثنا افغان امن مذاکرات میں شامل قطر کے ایک سفارت کار نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی عہدیداروں نے طالبان کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

قطر کے وزیر خارجہ کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت بھی افغانستان میں مستقبل کی حکومت کے لیے ایک 'کلیدی عنصر‘ کے طور پر دیکھے جانے والے طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں ایسے خبریں سامنے آئی تھیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کے تیزی سے انخلاء کے سبب بھارت ملاعبدالغنی برادر سمیت افغان طالبان کے مختلف گروپو ں کے ساتھ رابطے میں ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید