بھارت کا فرزند ہوں، دلائی لامہ
1 مئی 2010اس سلسلے میں بھارت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس تبتی رہنما نے کہا کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں جو کھانا انہوں نے سب سے زیادہ کھایا وہ ’بھارتی دال چاول‘ تھے اور وہاں اتنے طویل قیام کے باعث وہ خود کو بھارت کا بیٹا تصور کرتے ہیں۔
74 سالہ دلائی لامہ 1959 میں، جب وہ 24 سال کے تھے، تبت میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے تھے۔ وہ بھیس بدل کر اور ایک گھوڑے پر سوار ہوکر 30 اپریل 1960 کو بھارت پہنچے تھے۔ اس دور کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے انہیں رہنے کے لئے دھرم شالہ کا پہاڑی علاقہ پیش کیا تھا، جہاں وہ اب تک مقیم ہیں۔
اپنے ہزاروں پیروکاروں کے ہمراہ دلائی لامہ کی بھارت میں موجودگی کے پچاس سال مکمل ہونے پر ان کی ’’مرکزی تبتی انتظامیہ‘‘ نامی جلاوطن حکومت نے دھرم شالہ میں ایک تقریب منعقد کی۔ یہ انتظامیہ خود کو تبتی باشندوں کی نمائندہ حقیقی لیکن جلاوطن حکومت قرار دیتی ہے، جس کے سربراہ تینزن گیاتسو ہیں۔
بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پریم کمار دھومل نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دلائی لامہ امن، محبت، انسانیت اور برداشت کی علامت ہیں اور ان کی مہمان داری پر اس ریاست کے لوگوں کو فخر ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں واقع علاقے دھرم شالہ میں منعقدہ اس تقریب سے اپنے خطاب میں دلائی لامہ نے کہا کہ تبتی برادری بھارت کے علاوہ ان دیگر ریاستوں کی بھی شکر گزار ہے جنہوں نے تبتیوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔
دلائی لامہ کے بقول طویل جلاوطنی میں انہوں نے تبتی عوام کے حوالے سے اپنے مقاصد کے سلسلے میں بہت کچھ حاصل کیا ہے جس پر انہیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھارت میں ’’طویل ترین عرصے تک قیام کرنے والے مہمان‘‘ ہیں۔
چین اب بھی دلائی لامہ کو بدھ بھکشو کے لباس میں ایک ’’بھیڑیا‘‘ قرار دیتا ہے جو بیجنگ کے بقول چین کو توڑنا چاہتا ہے۔
دلائی لامہ کا البتہ مؤقف یہ ہے کہ وہ تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں البتہ تبت کے خطے کے لئے ’بامعنی خودمختاری‘ کے خواہش مند ہیں۔ دلائی لامہ کو عالمی طور پر لوگوں میں بدھ مذہب سے متعلق دلچسپی پیدا کرنے کے حوالے سے بھی شہرت حاصل ہے۔ وہ انسانی ذہنیت کے مختلف پہلوؤں سمیت بہت سے موضوعات پر درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک