تاجکستان نے افغان سرحد پر 20 ہزار ریزرو فوجی تعینات کر دیے
6 جولائی 2021افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد صورتحال بڑی تیزی سے طالبان کے حق میں تبدیل ہو رہی ہے۔ دو روز پہلے سینکڑوں افغان سکیورٹی اہلکار تاجک افغان سرحد پر اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر تاجکستان فرار ہو گئے تھے کیوں کہ شمالی افغانستان میں طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔
آج میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حمداللہ محب کا کہنا تھا، ''جو تاجکستان گئے تھے اب واپس آ رہے ہیں۔ یہ ایک مرتبہ پھر فیض آباد کے دفاع اور اس کے لوگوں کی خدمت کے لیے تیار ہیں۔‘‘ فیض آباد شمالی صوبے بدخشان کا دارالحکومت ہے اور اس کی سرحدیں تاجکستان سے جڑی ہوئی ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق اس صوبے کے اٹھائیس شہروں میں سے چھبیس پر طالبان قبضہ کر چکے ہیں جبکہ باقی دو پر قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے۔ دریں اثنا تاجک حکام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک سو ستائیس افغان سکیورٹی اہلکاروں کو افغانستان بھیجا جائے گا۔
سرحد پر سکیورٹی سخت اور روس کی مدد
افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث اس وسطی ایشیائی ملک میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھی ہیں۔ تاجکستان سابق سوویت ریاست ہے اور پیر کے روز اس ملک نے سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے بیس ہزار ریزرو فوجی تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاجکستان میں روس کے بڑے فوجی اڈے موجود ہیں۔ روسی حکام نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو سرحد کی سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے وہ بھی تاجک فورسز کی مدد کریں گے۔ اس حوالے سے تاجکستان میں موجود روسی فوجی ہیلی کاپٹروں نے بھی تربیتی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔
مغربی سکیورٹی حکام کے مطابق طالبان ایک سو اضلاع سے زائد پر قبضہ کر چکے ہیں جبکہ طالبان کے مطابق ان کا قبضہ چونتیس صوبوں میں دو سو سے زائد اضلاع پر ہو چکا ہے۔ اگر ان اعداد و شمار پر اعتبار کیا جائے تو طالبان کا قبضہ آدھے سے زائد افغانستان پر ہو چکا ہے۔
متعدد ممالک کے قونصل خانے بند
افغانستان کے شمال میں طالبان کی پیش قدمی دیکھتے ہوئے متعدد ممالک نے اپنے قونصل خانے بند کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شمالی صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں ترکی اور روس نے اپنے اپنے قونصل خانے بند کر دیے ہیں۔ یہ افغانستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ ایران نے اس شہر میں اپنے قونصل خانے کی سفارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صوبہ بلخ میں پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں لیکن مزار شریف قدرے پرسکون ہے۔ اسی طرح ازبکستان، تاجکستان، بھارت اور پاکستان نے بھی مزار شریف میں اپنی سروسز محدود کر دی ہیں۔ صوبائی گورنر کے ترجمان منیر فرہاد کے مطابق ترکی اور روس کے سفارت کار یہ شہر چھوڑ چکے ہیں۔
ا ا / ع س (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)