ٹی ٹی پی کا ہدف پاکستانی اورمغربی تعلیم یافتہ خواتین
9 اگست 2017اس شدت پسند تنظیم کی سوچ کے پرچار کے لیے جاری کیے گئے اس جریدے کے پہلے شمارے میں خاص بات ڈاکٹر خولہ بنت عبدالعزیز کہلانے والی ایک خاتون کا انٹرویو ہے، جو خود کو ایک پاکستانی فوجی کی بیٹی بتاتی ہے۔ اس جریدے کے اولین شمارے کے مطابق پاکستان کے شہر لاہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ خاتون اپنے طرز زندگی سے نا خوش ہو کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گئی تھیں۔
اس آن لائن شمارے میں ڈاکٹر خولہ بنت عبدالعزیز کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ کون ہیں اور انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کیوں اختیار کی؟ پاکستانی طالبان نے اس آن لائن انگریزی میگزین کے ذریعے کن لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے اس ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم کے ایک کمانڈر نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹر خولہ بنت عبدالعزیز دراصل تحریک طالبان کے ایک اہم کمانڈر عدنان رشید کی اہلیہ ہیں، جو ڈاکٹر عائشہ کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔
ٹی ٹی پی کے اسی اہم ذریعے نے بتایا کہ ڈاکٹر عائشہ کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، اور انہوں نے اپنی میڈیکل کی تعلیم لاہور میں مکمل کی تھی۔ بعد ازاں طبی تعلیم ہی کے سلسلے میں ڈاکٹر عائشہ کا کچھ وقت کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی گزرا تھا۔
طالبان کے اندرونی حلقوں سے ملنے والی قابل اعتماد معلومات کے مطابق ڈاکٹر عائشہ ایک اور ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے دو عسکری کمانڈروں استاد علی اور استاد اسلم کی مدد سے 2012 میں پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان پہنچی تھیں، جہاں بعد میں ان کی شادی کمانڈر عدنان رشید سے کر دی گئی تھی۔
عدنان رشید پاکستان ایئر فورس کا ملازم رہ چکا ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف پر ناکام خود کش حملوں کے جرم میں وہ شمالی وزیرستان سے متصل شہر بنوں کی ایک جیل میں قید تھا۔ عدنان رشید 2012 میں بنوں جیل سے فرار ہو کر اس وقت شمالی وزیرستان پہنچ گیا تھا، جب طالبان حملہ آوروں نے اس جیل پر دھاوا بول دیا تھا۔
یہ پتہ بھی چلا ہے جیل سے فرار کے بعد عدنان رشید کی شادی ڈاکٹر عائشہ سے شمالی وزیرستان میں ہوئی تھی۔ پاکستانی طالبان کے ذرائع کے مطابق عدنان رشید اور ڈاکٹر عائشہ تحریک طالبان پاکستان کے کئی دیگر شدت پسندوں کے ساتھ ہمسایہ ملک افغانستان کے ایک سرحدی پہاڑی سلسلے میں ایک نامعلوم مقام پر رہائش پذیر ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ایک دوسرے عسکری کمانڈر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈاکٹر عائشہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باعث اس عسکریت پسند تنظیم کی ایک مؤثر خاتون کارکن ہیں۔
اس کمانڈر کے مطابق ڈاکٹر عائشہ نے پولیو ویکسین کے مضمرات کے حوالے سے یو ٹیوب پر ایک تفصیلی ویڈیو بیان ’پولیو ویکسین کی حقیقت‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔ ’’شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے مسلح آپریشن ضربِ عضب کے آغاز کے فوراﹰ بعد ڈاکٹر عائشہ افغانستان منتقل ہو گئی تھیں، جہاں وہ طب اورخصو صاﹰ طالبان کے میڈیا کے ذریعے مسلح کارروائیوں میں خواتین کے کردار کو واضح کرتے ہوئے دیگر خواتین کو ٹی ٹی پی کی طرف مائل کرنے کاکام کر رہی ہیں۔ ’’خواتین کے انگریزی آن لائن جریدے ’سنتِ خولہ‘ کی اشاعت میں بھی ڈاکٹر عائشہ کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے۔‘‘
دوسری طرف پاکستان میں سکیورٹی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد نے ٹی ٹی پی کے طرف سے خو اتین کے لیے انگریزی زبان کے اس آن لائن جریدے کے اجراء کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستانی طالبان کی اس کوشش سے ثابت ہو گیا ہے کہ دقیانوسی نظریات کی حامل اس تنظیم کو بھی اب سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔
مغربی لڑکیاں: داعش میں شمولیت کا راستہ ہے، واپسی کا نہیں
’داعش کی جرمن دلہن‘ وطن لوٹ کر کیا کرے گی؟
مغربی لڑکیوں کے لیے داعش پُرکشش کیوں؟
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد نے کہا، ’’خواتین کے لیے انگریزی زبان میں اس جریدے کی اشاعت کے ذریعے انہوں نے درمیانے اور درمیانے سے اوپرکے سماجی طبقات کی ان خواتین تک اپنا پیغام پہنچانے کی کوششں کی ہے، جو انگریزی زبان سمجھتی ہیں۔‘‘
انہوں نے اس قسم کے میگزین کی اشاعت کو طالبان کو ایسی کوشش کا نام دیا، جس کے ذریعے وہ اس شکست کے اثرات کو زائل کرنا چاہتے ہیں، جو انہیں پاکستانی حکومت کی پالیسی اور فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ رہی ہے۔ تاہم سعد محمد نے یہ بھی کہا کہ اگر طالبان کے سوشل میڈیا پر ’سنتِ خولہ‘ کی اشاعت جیسے اقدامات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے، تو عسکریت پسندوں ایسی کاوشیں ملک میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والی خواتین کو کسی حد تک متاثر کر سکتی ہیں۔
اسی بارے میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ملک کے ایک اہم خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کے آن لائن اشاعتی مواد سے باخبر ہیں۔ یہ شدت پسند تنظیمیں اپنے نظریات کے پرچار اور تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق اعلانات کے لیے ٹیلیگرام، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں، جن پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں۔‘‘
پاکستانی فورسز کی کارروائیاں، ’داعش کے درجن جنگجو ہلاک‘
عسکریت پسندوں کے خلاف ’راجگل فوجی آپریشن‘ ضروری کیوں؟
اس سینیئر پاکستانی انٹیلیجنس اہلکار نے مزید کہا، ’’جب تک تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ادارے ملکی اور بین الا قوامی سطح پر فعال شدت پسند تنظیموں کے آن لائن مواد کے خلاف ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات نہیں کرتے، تب تک ایسی انتہا پسند تنظیموں اور ان کے پراپیگنڈے کا مکمل سدباب مشکل ہو گا۔‘‘