ترکی: فوجی بغاوت ناکام، نوے ہلاکتیں، حکومتی کنٹرول بحال
16 جولائی 2016ترک فوج کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق فوجی ہیڈکوارٹرز پر حکومت نواز سرکاری فورسز نے تقریباً دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ مغوی بنائے گئے فوج کے سربراہ کو بھی ہفتہ سولہ جولائی کی صبح باغیوں کے قبضے سے رہا کرا لیا گیا۔ جنرل ہولوسی اکار کو گزشتہ رات ناکام ہو جانے والی مسلح بغاوت کے دوران باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ جنرل اکار کو بازیابی کے بعد فوری طور پر ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ترک فوج کے سینیئر ترین افسر جنرل امید دوندار (Umit Dundar) کو آئندہ حکم تک تمام فوجی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی جا چکی ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق جنرل دوندار کو ترکی کی مسلح افواج کا قائم مقام سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ فوجی بغاوت کے دوران ترکی کے خفیہ ادارے کو خاص طور پر حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ فوج میں موجود باغی عناصر کا پوری طرح صفایا کر دیا جائے گا اور بغاوت میں ملوث فوجیوں کو اپنے اقدامات کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے آج ہفتے کی سہ پہر ملکی پارلیمان کا ایک اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ یلدرم کے مطابق ترکی میں ان کی حکومت کا کنٹرول بحال ہو گیا ہے۔ یلدرم نے ملکی میڈیا کو بتایا کہ باغیوں کے خلاف جاری کارروائی کے دوران ایک جنرل بھی مارا گیا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کئی مقامات پر باغیوں کی جانب سے تعینات کیے گئے فوجی دستوں نے ہتھیار پھینکنا شروع کر دیے ہیں۔ ان میں خاص طور پر باسفورس پل پر تعینات دستے شامل ہیں۔ اس فوجی بغاوت کے دوران باغیوں نے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے علاوہ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے تھے۔ ہفتے کی صبح تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد نوے بتائی گئی ہے۔ گیارہ سو سے زائد زخمی ہیں۔
دریں اثناء ترک فوج کے ہیڈکوارٹرز کے بعض حصوں میں باغی فوجیوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ اپنی مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ترک پولیس کے سربراہ جلال دین لیکیشیز (Celalettin Lekesiz) کے مطابق سولہ باغیوں کو ملٹری پولیس نے مزاحمت کے دوران ہلاک کر دیا۔ پولیس چیف نے ڈھائی سو فوجی باغیوں کے گرفتار کر لیے جانے کی تصدیق بھی کی۔
گرفتار ہونے والوں میں ترک آرمد فورسز کے چیف آف اسٹاف جنرل محمود حق بِیلین (Memduh Hakbilen) بھی شامل ہیں۔ جنرل محمود ایجیئن کے علاقے میں ترک فوجی کمان کے سربراہ تھے۔ ایک بریگیڈیئر جنرل کی حراست کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انقرہ حکومت کے اہلکاروں کے مطابق ترک مسلح افواج کے 754 اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ناکام بغاوت کے بعد 29 کرنل اور پانچ جنرل برطرف بھی کر دیے گئے ہیں۔ گرفتار شدگان میں کم از کم 336 عام فوجی بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ترک حکومتی حلقوں نے بتایا ہے کہ باغیوں کے قبضے میں کوئی جنگی طیارہ نہیں ہے جبکہ پارلیمان اور صدارتی محل پر حملوں کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔