1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کی صورتحال پر عالمی رہنماؤں کی تشویش

کشور مصطفیٰ16 جولائی 2016

ترک فوج کے مختلف شعبوں کے چوٹی کے کمانڈرز نے ٹیلی وژن پر آکر جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کو رد کرنے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ انہوں نے بغاوت کی اس کوشش کا الزام ترک فوج کے ایک چھوٹے گروپ پر عائد کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JPqS
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

عالمی برادری کی طرف سے ترکی میں سیاسی انتشار اور ملک کو مارشل لاء کی طرف دھکیلنے کی کوششوں کی سخت مذمت سامنے آ رہی ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ نے ہفتے کی صُبح ترکی کی صورتحال کے بارے میں ایک ٹوئٹ پیغام میں کہا، ’’جمہوری اداروں کا احترام کیا جانا چاہیے اور ترکی میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جانے چاہییں۔‘‘

امریکی صدر باراک اوباما نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ ترکی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کریں۔ اوباما نے اپنے نیشنل سکیورٹی کے مشیروں کے ساتھ ایک اجلاس کے بعد ایک بیان میں تمام ترکوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور تشدد اور خونریزی سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔

Türkei Putschversuch Tausende von Menschen reagieren gegen Aufstand Versuch
فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ترک عوام سڑکوں پر نکل آئےتصویر: picture alliance/AA/Y. Okur

اطلاعات کے مطابق اوباما نے ترکی کی صورتحال کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال کیا جو شام کے بحران کے بارے میں روسی حکام کے ساتھ مذاکرات کی غرض سے ماسکو میں ہیں۔

جان کیری نے ترکی کی انتہائی پیچیدہ اور غیر واضح صورتحال پر امریکا کی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ کیری نے کہا کہ انہوں نے ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور انہیں امریکا کی طرف سے ترکی کی جمہوری طور پر منتخب سویلین حکومت اور جمہوری اداروں کے لیے بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔

جان کیری نے ترکی کے تمام فریقوں اور پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ترکی میں قائم تمام سفارتی مشنز کے اہلکاروں اور ترک شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنائیں۔

اُدھریورپی یونین کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے ہفتے کی صُبح ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’میں ترکی کی صورتحال کا جائزہ انتہائی باریک بینی اور تشویش کے ساتھ لے رہا ہوں۔‘‘

Türkei Putschversuch Soldaten
استنبول میں تقسیم اسکوائر کے سامنے ترک فوج تعیناتتصویر: Reuters/M. Sezer

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا، ’’میں تحمل اورسکون اور ترکی کے جمہوری اداروں اور ملکی آئین کے مکمل احترام کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘

ترکی کے پڑوسی ملک یونان کے حکومتی اہلکاروں کے مطابق ترکی کی تازہ ترین صورتحال کے پس منظر میں ایتھنز میں یونانی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کا ہنگامی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔

دریں اثناء اسلامی جمہوریہ ایران نے جمعے کو ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے فوجی بغاوت کی کوششوں کی خبریں موصول ہونے پر تہران کی گہری تشویش کا اظہار کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے، ’’استحکام، جمہوریت اور ترک عوام کا تحفظ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یکجہتی اور دانشمندی اس وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔‘‘