ترکی میں آئینی ریفرنڈم: جرمنی میں رد عمل
15 ستمبر 2010وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسڑ ویلے کے مطابق ان آئینی ترامیم کی منظوری کے ساتھ ترکی یورپی یونین کے تھوڑا سا اور نزدیک آ گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کے اس بیان کا پس منظر وہ مذاکرات ہیں، جو یورپی یونین کی طرف سے انقرہ حکومت کے ساتھ ترکی کی یونین میں ممکنہ شمولیت کے سلسلے میں کئے جا رہے ہیں۔
لیکن اپنے اس بیان کے ساتھ ترقی پسند نظریات کےحامل ویسٹر ویلے نے برلن میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل اپنی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کی ساتھی قدامت پسند جماعتوں، CDU اور CSU کے مؤقف سے دوری بھی اختیار کر لی ہے۔
جرمن حکومت میں شامل ان دونوں یونین جماعتوں کا ابھی بھی یہ کہنا ہے کہ ترکی کو مستقبل میں یورپی یونین کی مکمل رکنیت نہیں دی جانی چاہئے بلکہ انقرہ کو برسلز کے ساتھ ایک ترجیحی شراکت داری کی پیشکش کی جانی چاہئے۔
ان خیالات کے برعکس جرمنی میں وفاقی سطح پر اپوزیشن کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے خارجہ سیاسی امور کے ماہر Gernot Erler برلن حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ترکی کے ساتھ گزشتہ پانچ سال سے جاری ممکنہ رکنیت سے متعلق ان مذاکرات کو بالآخر سنجیدگی سے لینا شروع کر دے، جو یورپی یونین انقرہ کے ساتھ کر رہی ہے۔
گیرنوٹ ایرلر کہتے ہیں کہ آئینی ریفرنڈم کے نتائج اور اس کے بعد ترکی میں اصلاحات اور جدیدیت کا عمل وفاقی جرمن حکومت کو اس بات پر مجبور بھی کر سکتا ہے کہ وہ ان ترک یو رپی مذاکرات کے بارے میں مکمل طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
گیرنوٹ ایرلر کہتے ہیں: ’’مجھے پوری امید ہے کہ وہ ریاستیں، جو ترکی کے ساتھ مذاکرات کی کامیاب تکمیل کی راہ میں کسی بھی طرح رکاوٹ ثابت ہو رہی ہیں، اور جن میں جرمنی کے علاوہ فرانس بھی خاص طور پر شامل ہے، اس ریفرنڈم کے بعد ان کے پاس موجود دلائل میں سے ایک کم ہو گیا ہے۔ 26 آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے اس ریفرنڈم کی ناکامی کی صورت میں انہیں اپنے دلائل میں یقینی طور پر تقویت کا احساس ہوتا۔ لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔‘‘
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے خارجہ سیاسی امور کے اس ماہر نے تاہم یہ بھی کہا کہ جس طرح آئینی عدالت اور ترک فوج پر سول حکومت اور عدلیہ کے کنٹرول کو مضبوط بنایا گیا ہے، اسی طرح ترکی میں اب انتخابی قوانین اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی لازمی آئینی ترامیم کی جانی چاہیئں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت : امجد علی