توہین رسالت قانون میں ممکنہ ترمیم کے خلاف لاہور میں مظاہرہ
30 جنوری 2011پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مذہبی سیاسی جماعتیں ملک کے کئی شہروں میں اس قانون میں ممکنہ تبدیلی کے خلاف کئی مرتبہ مظاہرہ کرچکی ہیں۔ سلمان تاثیر کو ان کے ایک محافظ ممتاز قادری نے چار جنوری کو اس وجہ سے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے جرم میں سزائے موت دیے جانے پر بیانات دیے تھے۔ سلمان تاثیر نے اس پاکستانی قانون کو نوعیت کے اعتبار 'کالا قانون' قرار دیتے ہوئے اس میں تبدیلی کا عندیہ دیا تھا۔
سلمان تاثیر کے ان بیانات پر پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ گورنر کے قتل کے بعد سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ مذکورہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
لاہور میں اتوار کو احتجاج کرنے والی جماعتوں کے کارکنوں نے سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی رہائی کے مطالبات پر مبنی بینر بھی اٹھا رکھے تھے۔ ان میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت الدعوة کے کارکن شامل تھے۔ یہ لوگ نعرے لگا رہے تھے کہ توہین رسالت کے قانون میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی۔
ایک مقامی حکومت کے اہلکار طارق زمان نے مظاہرین کی تعداد 40 ہزار کے قریب بتائی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس ریلی سے پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ اور مسلم لیگ ق کے بعض رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر ایک امریکی شہری ریمونڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دو افراد کے بھائیوں کو بھی سٹیج پر لایا گیا اور اس کیس میں ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی گئی۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: شادی خان سیف