توہین رسالت کا قانون، اٹلی میں مظاہرہ
27 جنوری 2011بدھ کے دن پاکستانی کمیونٹی اور ایمنسٹی انٹرنیشل کے نمائندوں کے علاوہ کیتھولک اور یہودی ایسوسی ایشنز نے بھی روم میں پارلیمان کی عمارت کے سامنے اس احتجاج میں شریک ہو کر آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس احتجاج میں کم ازکم سو افراد شریک ہوئے۔
اس موقع پر پاکستانی نژاد ایک مسیحی جوزف فلپ نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا،’ ہم چاہتے ہیں کہ اس قانون کو ختم کر دیا جائے۔‘ انہوں نے کہا کہ ان کے ایک انکل کو، جو کتھولک بشپ تھے، مذہبی اعتقاد کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فلپ دیگر 15 پاکستانیوں کے ساتھ اس مظاہرے میں شریک ہوئے تھے۔
اطالوی وزیراعظم سلویو بیرلسکونی کے حکمران اتحاد کا حصہ ناردرن لیگ پارٹی کے سربراہ نے بھی اس مظاہرے میں شرکت کی۔ Umberto Bossi نے کہا،’ یہاں ہم اپنی یک جہتی کا یقین دلانے کے لیے آئے ہیں۔‘اس احتجاج کے بعد مظاہرین کے ایک وفد نے اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینی سے ملاقات بھی کی۔
پاپائے روم اورعالمی برادری کی طرف سے مطالبات کے بعد ابھی حال ہی میں یورپی پارلیمان نے بھی پاکستانی صدر آصف علی زرداری پر زور دیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو سنائی جانے والی سزائے موت واپس لے لیں۔ یورپی پارلیمان نے پاکستانی حکومت سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ توہین رسالت کے قانون میں ترامیم کی جائیں۔
یورپی یونین کی طرف سے یہ اپیل اس وقت کی گئی تھی، جب صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک محافظ نے مبینہ طور پر صرف اس لیے قتل کر دیا تھا کہ سلمان تاثیر نے اسی قانون میں ترمیم کی بات کی تھی۔
45 سالہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو گزشتہ برس نومبر میں توہین رسالت کے جرم میں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ پانچ بچوں کی ماں پرالزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے پیغمبر اسلام کے خلاف متنازعہ کلمات ادا کیے تھے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان