1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے اپنے من پسند بسکٹ بنائیے

امجد علی15 ستمبر 2015

آج کل جرمن شہر میونخ میں بیکری مصنوعات کا سب سے بڑا عالمی تجارتی میلہ منعقد ہو رہا ہے۔ اس بار اس میں ایسے تھری ڈی یا سہ جہتی پرنٹر بھی مرکزِ نگاہ ہیں، جن کے ذریعے کھانے کی مختلف رنگا رنگ چیزیں ’پرنٹ‘ کی جا سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GWgT
Deutschland Neuheiten von der Bäckereimesse iba Lebensmitteldrucker
بیکری مصنوعات کے عالمی میلے میں متعارف کروایا جانے والا پرنٹر "Bocusini" قسم قسم کے ڈیزائن والے کھانے تیار کر سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk

تھری ڈی پرنٹر سے عینک کا فریم بنانا یا چائے کافی کی پیالی بنانا تو اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی۔ نیا یہ ہے کہ اب اس طرح کے پرنٹر کے اندر سے آلو کا ملیدہ یا پھر بسکٹ بھی برآمد ہو سکتے ہیں#

آلو کے ملیدے سے بنا ہوا کوئی آکٹوپس یعنی ہشت پا، کلیجی کے ساسیج سے تیار کیا ہوا کوئی پھول یا پھر چاکلیٹ سے بنی کوئی کشتی، میونخ میں جاری میلے iba کو دیکھنے کے لیے جانے والے شائقین اس طرح کی ’پرنٹ‘ کی ہوئی مصنوعات کو چکھ بھی سکتے ہیں۔

Print2Taste، یہ ہے نام میونخ کے قریب فرائزنگ میں قائم ایک نئے ادارے کا، جو کھانے ’پرنٹ‘ کرنے والے پرنٹر تیار کر رہا ہے اور اُنہیں سرِدست اس تجارتی میلے میں لوگوں کو دکھا رہا ہے۔ آئندہ سال یعنی 2016ء سے اس طرح کے پرنٹر بازار میں آ جائیں گے۔

اس ادارے میں ایک دَس رُکنی ٹیم اس طرں کے پرنٹرز تیار کرنے میں مصروف ہے۔ میلانی زینگر اس ٹیم کی ایک اکتیس سالہ رکن ہیں، جنہوں نے خوراک سے متعلقہ امور کی ماہر بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جیسے ایک حلوائی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھوٹی سی پوٹلی کو دبا دبا کر جلیبیاں بناتا ہے، اسی طرح ایک پرنٹر سے بھی خام مادہ برآمد ہوتا ہے لیکن ایک حلوائی کے مقابلے میں ایک تھری ڈی پرنٹر سے یہ مادہ کہیں زیادہ باریکی اور نفاست کے ساتھ نکلتا ہے۔

Deutschland Neuheiten von der Bäckereimesse iba Lebensmitteldrucker
پرنٹر سے نکلنے والے خام مادے کی مدد سے مختلف طرح کی اشکال بنائی جا سکتی ہیں، جنہیں بعد میں اوون میں رکھ کر پکایا اور پھر مزے سے کھایا جا سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk

پرنٹر سے نکلنے والے خام مادے کی مدد سے مختلف طرح کی اشکال بنائی جا سکتی ہیں، جنہیں بعد میں اوون میں رکھ کر پکایا اور پھر مزے سے کھایا جا سکتا ہے۔

ماہرین اس یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگرچہ ابھی پرنٹرز سے نکلی ہوئی خوراک ایک نئی اور انوکھی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن آئندہ چند برسوں میں یہ بہت عام ہو جائے گی۔