تیونس میں پرتشدد مظاہرے جاری، دو سو گرفتاریاں
11 جنوری 2018تیونس کی وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ مختلف شہروں میں جاری ان مظاہروں کے دوران مشتعل مظاہرین نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ تیونس میں حکومت کی جانب سے بچتی اقدامات کے اعلان کے بعد ان مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔
خواتین کی سکیورٹی، تیونس نے امارات کی پروازیں معطل کر دیں
اسمگلروں نے یورپ کے لیے نیا راستہ ڈھونڈ لیا
تیونسی کوسٹ گارڈز نے 140 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا
سن 2011ء میں عرب دنیا میں عوامی انقلابات (عرب اسپرنگ) کا آغاز اسی شمالی افریقی ملک سے ہوا تھا اور یہ وہ واحد ملک تھا، جہاں انقلاب کے بعد پرامن انداز سے جمہوری عمل کا آغاز ہوا تھا۔ تاہم تیونس میں معاشی مسائل بدستور کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
تیونس میں مہنگائی اور ٹیکسوں میں اضافے اور سماجی بہبود کے شعبے میں کم حکومتی سرمایہ کاری کی وجہ سے عوامی سطح پر شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ بجٹ میں خسارے میں کمی کے لیے حکومت نے رواں سال کے لیے ایک سخت بجٹ پیش کیا ہے اور اس بجٹ کے اعلان کے بعد سے تیونس کے متعدد شہروں میں عوام سڑکوں پر ہیں۔
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق اب تک 49 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جب کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب سے اب تک 206 ’شرپسند عناصر‘ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ مشتعل مظاہرین نے متعدد املاک کو نقصان پہنچایا جب کہ دارالحکومت تیونس کے نواح میں ایک سپر مارکیٹ بھی لوٹ لی گئی۔ مقامی میڈیا کے مطابق بدھ کا دن خاصا پرامن گزرا تاہم شام ہوتے ہی مختلف مقامات پر مظاہرین پھر سے دکھائی دینے لگے۔
تیونس کے وزیر اعظم یوسف شاہد نے املاک پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض بدعنوان عناصر ایسی کارروائیوں کے ذریعے ریاست کو کم زور کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مظاہروں کو ہوا دے رہی ہے۔
ان مظاہروں کے پھیلاؤ کے باعث بعض بینکوں کی حفاظت کی ذمہ داری فوج کے سپرد کر دی گئی ہے۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر مظاہرین ٹائرجلا کر سڑکیں روکے ہوئے ہیں جب کہ پولیس پر پتھراؤ بھی کیا جا رہا ہے۔