’جرمنی مہاجرین کی پناہ گاہوں کے تحفظ میں ناکام ہو رہا ہے‘
9 جون 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی کی برلن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ جرمن حکام کے پاس مہاجرین کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
جرمنی میں مشرق وسطٰی کے شورش زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے نفرت اور اجانب دشمنی پر مبنی جرائم اور مہاجرین کو فراہم کردہ رہائش گاہوں پر حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ملک کی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014ء کے دوران ایسے 175 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے جو 2015ء میں کئی گنا اضافے کے بعد 923 ہو گئے تھے۔ رواں برس کے دوران بھی تارکین وطن اور مہاجرین کے خلاف حملوں میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ جرمن پولیس کے پاس عمومی طور پر پر پناہ گاہوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پناہ گاہوں کی حفاظت کے لیے نجی کمپنیوں کی خدمات لی جاتی ہیں لیکن جرمن پولیس ان نجی محافظوں کی چھان بین نہیں کرتی۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ’’ایسے واقعات بارہا دیکھے گئے ہیں کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو پناہ گاہوں کی حفاظت پر مامور کر دیا جاتا ہے اور ایسے محافظ تارکین وطن کی پناہ گاہوں کی حفاظت کے بجائے اس کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔‘‘
مہاجر کیمپ میں آگ لگنے کی وجہ روزے پر تنازعہ
گزشتہ دنوں ڈوسلڈورف کا ایک مہاجر کیمپ آگ لگنے کے باعث مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ دفتر استغاثہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مبینہ طور مہاجرین ہی نے کیمپ میں آگ لگائی تھی اور اس کی وجہ ممکنہ طور پر کیمپ میں رہنے والے مہاجرین کے مابین رمضان کے مہینے میں کھانا کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والا تنازعہ بنا۔
ریڈ کراس کے زیر انتظام چلائے جانے والے اس کیمپ میں شام، عراق، افغانستان اور شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے 228 مرد تارکین وطن رہائش پذیر تھے۔ آگ کی وجہ سے 28 تارکین وطن زخمی بھی ہوئے۔
دفتر استغاثہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بتایا، ’’رمضان کے مہینے میں مہاجرین کا ایک گروپ کھانے کے اوقات کار میں تبدیلی چاہتا تھا جب کہ دوسرا گروپ چاہتا تھا کہ عام دنوں کی طرح تینوں وقت کھانا فراہم کیا جائے۔ آگ اسی تنازعے کی وجہ سے لگائی گئی۔‘‘
پولیس نے آٹھ مہاجرین کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر رکھی ہے جن میں مراکش سے تعلق رکھنے والے وہ دو مہاجرین بھی شامل ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر بستروں پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔