جرمنی میں اگلے سال سے کساد بازاری، اقتصادی اداروں کی پیشگوئی
30 ستمبر 2022وفاقی جرمن دفتر شماریات نے بتایا کہ اس مہینے ملک میں افراط زر کی شرح 10 ہو گئی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس ریکارڈ حد تک زیادہ ماہانہ اضافے میں توانائی کے ذرائع اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ایک ماہ قبل اگست میں یہی ماہانہ شرح 7.9 فیصد رہی تھی۔ جرمنی میں، جو یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے، افراط زر میں یہ اضافہ اور خاص طور پر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اس سال فروری کے اواخر میں اس وقت سے دیکھنے میں آرہے ہیں، جب روس نے یوکرین پر فوجی حملہ کیا تھا۔
جرمنی میں تقریباﹰ سترہ فیصد باشندے غربت کا شکار
اسی وجہ سے روس سے جرمنی سمیت پوری یورپی یونین کو قدرتی گیس کی ترسیل بھی بہت متاثر ہوئی ہے، حالانکہ روسی یوکرینی جنگ سے قبل یورپی یونین کے رکن ممالک گیس کی درآمد کے لیے زیادہ تر روس پر ہی انحصار کرتے تھے۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ رواں مہینے تک جرمنی میں توانائی کی قیمتوں میں گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں 43.9 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
ستمبر میں افراط زر کی شرح بہت زیادہ کیوں رہی؟
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق رواں سال کی تیسری سہ ماہی کے آخری مہینے میں جرمنی میں افراط زر کی شرح اس لیے بھی ایک نئی ریکارڈ حد تک پہنچ گئی کہ اسی مہینے وفاقی حکومت کی طرف سے عام صارفین کو ایندھن کی خریداری پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہو گئی۔
یورپی یونین: بجلی کی بڑھتی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش
اس کے علاوہ پورے ملک میں ہر شہری کے لیے قابل رسائی نو یورو ماہانہ کی تین ماہ کے عرصے کے لیے متعارف کردہ وہ اسپیشل ٹکٹ آفر بھی ختم ہو گئی، جس کے ساتھ علاقائی ذرائع آمد و رفت استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی صارف پورا مہینہ پورے ملک میں مفت سفر کر سکتا تھا۔
چانسلر شولس کا اعلان کردہ نیا پیکج
برلن میں موجودہ مخلوط حکومت کے سربراہ اور وفاقی چانسلر اولاف شولس نے ابھی کل جمعرات 29 ستمبر کے روز ہی اعلان کیا تھا کہ حکومت نے عام شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے ایک نیا پروگرام تیار کر لیا ہے، جس کی مالیت 150 بلین سے لے کر 200 بلین یورو (145 بلین سے لے کر 194 بلین ڈالر) تک ہو گی۔
یہ اعلان کرتے ہوئے چانسلر شولس نے برلن میں صحافیوں کو بتایا، ''جرمن حکومت اپنی ہر وہ کوشش کرے گی، جس کے ذریعے صارفین کے لیے قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔‘‘
اگلے برس سے کساد بازاری کا آغاز
اسی دوران جمعرات ہی کے روز جرمنی کے کئی سرکردہ اقتصادی تحقیقی اداروں نے اپنی متفقہ پیش گوئی میں کہا کہ یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت میں اگلے سال سے کساد بازاری شروع ہو جائے گی۔
جرمنی نے بحیرہ بالٹک سے بجلی کے حصول کا راستہ محفوظ کر لیا
مستقبل کے اقتصادی امکانات سے متعلق اپنی رپورٹ میں ان اداروں نے کہا کہ گیس مارکیٹ کی بحرانی صورت حال، توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں مجموعی اضافے اور عام شہریوں کی قوت خرید میں واضح کمی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جرمن معیشت میں 2023ء سے کساد بازاری کا دور شروع ہو جائے گا۔
آر ڈبلیو آئی نامی اکنامک تھنک ٹینک کے اقتصادی تحقیق کے شعبے کے سربراہ ٹورسٹن شمٹ نے کہا، ''توانائی کے ذرائع کی بہت زیادہ قیمتیں ہی وہ اہم ترین وجہ ہو گی، جو جرمن معیشت کو کساد بازاری کی طرف لے جائے گی۔‘‘
ساتھ ہی ٹورسٹن شمٹ نے یہ بھی کہا کہ جرمن معیشت کا حجم سال رواں کی دوسری ششماہی کے دوران بھی سکڑنا شروع ہو جائے گا۔ ان ماہرین کا اندازہ کہ 2023ء میں ملک میں افراط زر کی شرع متوقع طور پر 8.8 فیصد رہے گی۔
میونخ میں قائم آئی ایف او نامی انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2024ء میں ممکنہ طور پر ملک میں افراط زر کی شرح کافی حد تک کم تو ہو جائے گی، تاہم وہ پھر بھی دو فیصد کے اس مقررہ ہدف سے کچھ زیادہ ہی رہے گی، جس کے یورو زون میں حصول کی یورپی مرکزی بینک ای سی بی کی طرف سے کوشش کی جاتی ہے۔
م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)