080711 Salafisten Islam
11 جولائی 2011ان میں سے کوئی بھی تحریک اُتنی تیزی سے مقبولیت اختیار نہیں کر رہی ہے، جتنی کہ سلفیوں کی بنیاد پرست تحریک۔
اگرچہ سلفیوں کی تحریک کے ارکان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن آئینی تحفظ کے وفاقی جرمن محکمے کے صدر ہائنز فروم کے مطابق بظاہر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کی بناء پر اسے خطرناک قرار دیا جا سکے تاہم اُنہیں ایک اور بات پر تشویش ہے:’’ہر سلفی دہشت گرد نہیں ہے لیکن ہمارے علم میں آنے والے تمام دہشت گرد یا تو سلفی تھے یا اُن کے سلفیوں کے ساتھ روابط تھے۔‘‘
عربی زبان کے لفظ سلف کا مطلب ہے، آباؤ اجداد اور اس تحریک کا مقصد ہے، آباؤ اجداد کے عقائد اور اُن کے طرزِ زندگی کی سختی سے پیروی کرنا۔ یہ وہ نظریات ہیں، جو چودہ صدیاں پہلے وجود میں آئے اور تین سو سال بعد اُس وہابی اسلام کی بنیاد بنے، جو آج بھی سعودی عرب میں نظر آتا ہے۔ سلفیوں کے نظریات اس قدر قدیم سہی تاہم ان کی تشہیر کے لیے وہ انٹرنیٹ اور ابلاغ کے تمام تر جدید وسائل سے استفادہ کر رہے ہیں۔
جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سیکرٹری جنرل ایمن مزیک کے مطابق سلافی نظریہ اُسی طرح مذہب کو انتہا پسندانہ رنگ دینے کی ایک کوشش ہے، جیسی کہ دیگر مذاہب میں بھی وقتاً فوقتاً دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جرمنی کی مسلمان تنظیمیں نوجوان مسلمانوں کو اس انتہا پسندانہ تحریک سے بچانے کی کوشش کر رہی ہیں:’’یہ فریضہ مسلمان کمیونٹی کا ہے کہ وہ انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لیے معتدل قوتوں کو مستحکم کرے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامیت پسند بیانات سے پوری مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنے کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ مل کر انتہا پسندوں کا مقابلہ کیا جائے۔‘‘
جہاں اعتدال پسند مسلمان اور اُن کی تنظیمیں جرمن معاشرے میں مسلمانوں کے انضمام کے حق میں ہیں، وہاں سلفی نوجوان مسلمانوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ مکالمت اور انضمام کا مقصد اُنہیں اسلام سے دور کرنا ہے۔ اسلام قبول کرنے والے دو جرمنوں پیئیر فوگل اور سوین لاؤ نے کچھ عرصہ قبل ’جنت کی دعوت‘ نامی ایک گروپ بنایا، جس نے اُسامہ بن لادن کی یاد میں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا۔
دریں اثناء یہ گروپ تحلیل ہو چکا ہے تاہم یہ لوگ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور آج کل سلفی نظریے کا پرچار کر رہے ہیں۔ سوین لاؤ بتاتے ہیں:’’ہمارے پاس آنے والے زیادہ تر لوگوں کی عمریں بیس اور تیس کے درمیان ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں، جو پھر سے کمزور پڑ جاتے ہیں، مسجد میں آنا کچھ عرصے کے لیے کم کر دیتے ہیں اور پھر سے ڈسکو وغیرہ میں جانا یا سگریٹ نوشی وغیرہ شروع کر دیتے ہیں لیکن بنیادی طور پر نوجوان مسلمان جوق در جوق ہمارے پاس آ رہے ہیں۔‘‘
وفاقی جرمن پارلیمان کی داخلہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین وولف گانگ بوزباخ کے مطابق غالباً یہ نوجوان اس لیے اس تحریک کی طرف مائل ہو رہے ہیں کہ وہ ایسے نظریات کو پسند کرتے ہیں، جو سمجھوتوں کو مسترد کرتے ہوں۔ اُن کے خیال میں ایسی تحریکیں معاشرے کے اُن عناصر کو اپنی طرف زیادہ کھینچتی ہیں، جو پہلے ہی سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اپنے سے مختلف نظریات اور مذاہب کے حامل لوگوں کے خلاف تشدد روا رکھنے کو درست تصور کرتے ہیں۔
رپورٹ: پیٹر فلیپ / امجد علی
ادارت: امتیاز احمد