1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں لاکھوں تارکین وطن دوہری شہریت کے لیے پُر امید

30 اپریل 2023

جرمن پارلیمان میں زیر غور اصلاحات اب دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیے دوہری شہریت کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ اگر ان اصلاحات کی منظوری دی گئی تو اس سے مستفید ہونے والوں میں سب سے بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی ہوگی۔

https://p.dw.com/p/4Qclt
Reisepass Symbolbild
تصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

شینر ثروت کا تعلق ترکی سے ہے لیکن وہ چھ دہائیوں سے جرمنی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر رکھی ہے اور مقامی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے باوجود اس اسی سالہ بزرگ کے پاس جرمن شہریت نہیں کیونکہ کسی دوسرے ملک کی شہریت لینےکا مطلب یہ ہےکہ انہیں اپنی ترک شہریت ترک کرنا پڑے گی۔

 لیکن یہ صورتحال اب تبدیل ہو سکتی ہے۔ جرمن پارلیمان میں جرمن قومیت سے متعلق زیر غور اصلاحات اب دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیےدوہری شہریت کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد جرمنی میں آباد ترک باشندوں کی بھی ہے۔ ثروت نے فرینکفرٹ میں اپنے گھر سے اے ایف پی کو بتایا،''میں اکثر جرمن شہریت حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا تھا لیکن پھر میں ہمیشہ ایسا کرنے سے رکا رہاکیونکہ اس کے لیے مجھے اپنی ترک شہریت ترک کرنا پڑتی اورمیں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘‘

Deutschland | Beginn der Türkei-Wahlen
اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی تقریباً 84 ملین آبادی میں ترک پس منظر والے تقریباً 2.8 ملین افراد  شامل ہیںتصویر: Rolf Vennenbernd/dpa/picture alliance

زلزلے سے ترک نژاد جرمنوں کے ریٹائرمنٹ پلان کھٹائی میں

'سست رفتار سہی لیکن ایک اچھا قدم‘

 جرمنی میں مقیم ترک کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ایک غیر سرکاری گروپ ٹی جی ڈی کے بانی ثروت کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں  ''غصے میں‘‘ ہیں کہ تبدیلی اتنی سست رفتار  ہے لیکن وہ پُر امید ہیں کہ یہ آخر کار ہو سکتا ہے،''یہ ایک اچھا قدم ہو گا نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خود جرمنی کے لیے‘‘۔ جرمنی کی موجودہ اتحادی حکومت شہریت سے متعلق ان منصوبوں پر بات چیت میں مصروف ہے اور ایسے مثبت اشارے مل رہے ہیں کہ اس حوالے سے جلد ہی معاہدہ ہو سکتا ہے۔

زلزلہ متاثرین کے لیے جرمن حکومت کی فاسٹ ٹریک ویزا پیشکش

ثروت 1959ء میں استنبول سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرینکفرٹ پہنچے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے، جب ترکی اور جرمنی کے مابین  ایک معاہدےکے نتیجے میں بڑی تعداد میں ترکوں کے لیے جرمنی میں کام کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ دوسری عالمی  جنگ کے بعد جرمنی اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا تھا اور اسے  تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو، شپ یارڈز، اسٹیل ورکس اور کار سازی کے پلانٹس میں کام کرنے کے لیے افرادی قوت کی اشد ضرورت تھی۔

جرمنی نے ترکی کے ساتھ ساتھ  اٹلی، تیونس اور یونان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کیے تاکہ نام نہاد ''مہمان کارکنان‘‘کو عارضی بنیادوں پر کام کے لیے اپنے ہاں لایا جا سکے۔  اس معاہدے کے تحت تقریباً 870,000 ترک باشندے جرمنی آئے اور یہ سلسلہ 1973 ء تک جاری رہا۔ ان میں سے سینکڑوں ہزاروں یہیں قیام کر تے ہوئے یورپ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں بڑی سماجی اور آبادیاتی تبدیلیوں کے آغاز کا سبب بنے۔

فرار ہو کر جرمنی آنے والے ترک باشندوں کی تعداد میں اضافہ

Deutschland Berlin | Bundestag | Regierungserklärung Olaf Scholz, Bundeskanzler
جرمن پارلیمان میں زیر غور اصلاحات اب دوسرے ممالک کے لوگوں کے لیےدوہری شہریت کے دروازے کھول سکتی ہیںتصویر: Annegret Hilse´/REUTERS

'جدید شہریت کا قانون‘

  ثروت کے مطابق نئے آنے والوں کو ابتدائی دنوں میں بہت کم حقوق حاصل تھے اور انہیں ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ان کے بقول برسوں کے دوران حالات میں بہتری آئی اور بہت سے لوگ اپنے خاندان جرمنی لے آئے لیکن ان کا جرمن شہریت کے حصول کا راستہ مشکل رہا۔ انہیں ایک اچھے معیار کے ساتھ جرمن زبان سیکھنا تھی اور یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ معاشرے میں ضم ہو چکے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ انہیں اپنی ترک قومیت  ترک کرنا تھا۔

’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘ : جرمنی کا دوہری شہریت سے متعلق قانون

سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچئین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے قدامت پسند ارکان کئی دہائیوں سے شہریت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمزور قوانین معاشرے میں نئے آنے والوں کے انضمام کا باعث نہیں بنیں گے۔تاہم  2021  ء میں برسر اقتدار آنے والی جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت نے ایک نیا ''جدید شہریت کا قانون‘‘ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔

 زیرغوراصلاحات

 اس سلسلے میں زیر غور مسودہ بل زیادہ تر غیر ملکیوں کے لیے دوہری شہریت اختیار کرنے کا راستہ کھول دے گا، جو عام طور پر اس وقت صرف یورپی یونین اور سوئس شہریوں تک محدود ہے۔ منصوبہ بند اصلاحات میں نیچرلائزیشن کے لیے درکار رہائش کے سالوں کی تعداد کو فی الحال آٹھ سے کم کر کے پانچ کرنا بھی شامل ہے اور یہاں تک کہ کچھ معاملات میں یہ عرصہ تین سال تک محدود کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ''گیسٹ ورکر‘‘ کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کے جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے زبان کی ضروریات کو بھی آسان کیا جائے گا۔

ٹی جی ڈی  کے مطابق اس قانون سازی کا جرمنی میں مقیم  10 لاکھ افراد پر مشتمل ترک کمیونٹی پر اثر ممکنہ طور پر بہت بڑا ہو سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی تقریباً 84 ملین آبادی میں ترک پس منظر والے تقریباً 2.8 ملین افراد  شامل ہیں۔ منصوبہ بند شہریت کی بحالی کا تذکرہ مخلوط حکومت کے قیام کے وقت کیے گئے ایک بڑے معاہدے میں کیا گیا تھا۔

 ش ر⁄ ک م (اے ایف پی)