جرمنی کا دوہری شہریت سے متعلق قانون
6 دسمبر 2022جرمن حکومت کئی دہائیوں سے دوہری شہریت پر پابندی ختم کرنے اور تارکین وطن کو دوہری یا کثیر الملکی شہریت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس التوا سے متاثر ہونے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ برلن حکومت کو یہ خیال بہت دیر سے آیا ہے۔ اسے یہ فیصلہ بہت پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا۔ یورپ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں دوہری شہریت رکھنے کا حق ایک دیرینہ روایت ہے۔
ایک امریکی باشندے مارک یونگ گزشتہ 20 برسوں سے جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ دوہری شہریت کے حوالے سے انہوں نے ڈوئچے ویلے کو جرمنی میں اپنے تجربات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کسی تارک وطن کو جرمنی میں دوہری شہریت کی اجازت دینے کا معاملہ انتہائی تاخیر سے زیر بحث آیا ہے۔ یونگ نے 10 سال پہلے جرمن شہریت حاصل کرنے اور اپنی امریکی شہریت برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ ان کاکہنا ہے،''اس وقت میں جرمن شہریت حاصل کرنے کے لیے کتنا پرجوش تھا۔ اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن میں نے اپنا امریکی پاسپورٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اپنی پرانی شہریت برقرار رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی وفاداریاں الگ کر لیں جیسا کہ بہت سے جرمن قدامت پسندوں کا دعویٰ ہے۔ یہ صرف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آپ واقعی کون ہیں۔ آپ کی اصل شناخت کیا ہے؟‘‘
گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر اولاف شولس کے اس اعلان نے ملک میں ایک نئی سیاسی بحث چھیڑ دی، جس میں جرمن چانسلر نے کہا تھا کہ ان کی حکومت دوہریشہریت کی اجازت کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ڈیموکریٹ لیڈر اولاف شولس کی قیادت والی حکومت جن اصلاحات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے وہ جرمنی کے امیگریشن قانون کے وسیع پیمانے پر نظر ثانی کا حصہ ہیں جس کا بنیادی مقصد زیادہ ہنر مند کارکنوں کو جرمنی آنے اور لیبر مارکیٹ میں بڑے پیمانے پائے جانے والے قحط الرجال کو دور کرنے کی کوشش ہے۔
جرمن قوانین میں منصوبہ بند تبدیلیاں
جرمنی میں اصلاحات کے زریعے شہریت کے قوانین میں جن تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے وہ تین بنیادی نکات پر مشتمل ہیں: جرمنی میں قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کو موجودہ آٹھ کی بجائے پانچ سال بعد شہریت کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہوگی۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے ایسے بچے جن کے والدین میں سے کم از کم کوئی ایک جرمنی میں پانچ یا اس سے زیادہ سالوں سے قانونی طور پر رہ رہا ہے، وہ جرمنشہری تصور ہوں گے۔ تارکین وطن کو جرمنی میں رہتے ہوئےکثیر الملکی شہریت رکھنے کی اجازت ہوگی۔
جرمنی کی قدامت پسند جماعت اور اپوزیشن کی سینٹر رائٹ کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU)، جس نے ماضی میں اس طرح کی کسی بھی اصلاحات کو مستقل طور پر روکے رکھا ہے، نے فوری طور پر سوشل ڈیموکریٹ چانسلر اولاف شولس کے منصوبوں پر تنقید کی۔ سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش مرز نے گزشتہ ہفتے عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بیان دیتے ہوئے کہ، ''جرمن شہریت بہت قیمتی چیز ہے اور اس بارے میں کسی فیصلے میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوہری شہریت کے حق دار کون؟
جرمنی میں اس وقت دوہری شہریت کے حقدار تارکین وطن میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے آبائی ملکوں میں باشندوں کو شہریت ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے (جیسے ایران، افغانستان اور مراکش)۔ علاوہ ازیں جرمن اور دیگر شہریت رکھنے والے والدین کے بچے، ایسے مہاجرین جنہیں ان کے آبائی ملک میں ساسی تعصب اور ظلم و ستم کا خطرہ لاحق ہو اور اسرائیلی باشندوں کو دوہری شہریت رکھنے کا حق حاصل ہے۔ ایسے شامی باشندے جو مہاجرین کے طور پر جرمنی آئے تھے اور اب انہیں جرمن معاشرے میں اچھی طرح ضم سمجھا جاتا ہے، وہ بھی جرمن شہریت کے لیے تیزی سے اپنا کیس آگے بڑھا سکتے ہیں۔
جرمنی کے لیے اس کی اہمیت
تارکین وطن سے متعلق قوانین میں مذکورہ اصلاحات جرمنی کو دوسرے یورپی ممالک کے برابر لا کھڑا کریں گی۔ یورپی یونین میں سویڈن وہ ملک ہے جہاں سن 2020 میں 'نیچرلائزیشن کیسز‘ یا سویڈش شہریت اپنانے کی شرح سب سے زیادہ تھی۔ وہاں رہنے والے تمام غیر ملکیوں میں سے 8.6 فیصد کوشہریت دی گئی جبکہ جرمنی میں یہ شرح 1.1 فیصد تھی۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے شماریات کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں ایک سے زیادہ شہریت رکھنے والے باشندوں کی تعداد تقریباً 2.9 ملین ہے جو جرمنی کی آبادی کا تقریباً ساڑھے تین فیصد حصہ بنتا ہے۔ تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی کیونکہ اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق نئی جرمن شہریت حاصل کرنے والے 69 فیصد باشندوں کے پاس اپنے پرانے پاسپورٹس موجو د ہیں۔ مثال کے طور پر پولش، روسی، یا ترک پاسپورٹ رکھنے والے افراد اپنے پرانے پاسپورٹ کے ساتھ جرمن شہریت حاصل کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
غلط بیانی کی صورت میں جرمن پاسپورٹ دس برس بعد بھی معطل ہو سکے گا
'گیسٹ ورکرز‘ نسل کے لیے بہت دیر ہوچُکی
جرمنی کے شہریت کے قوانین میں اصلاحات میں بہت تاخیر سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ترک برادری ہے۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے ترک باشندے اُس وقت جرمنی آئے تھے جب جنگ سے تباہ حال اس ملک کو کارکنوں کی ضرورت تھی۔ 1960ء کی دہائی میں جب تیزی سے وسیع ہوتی مغربی جرمن ریاست نے کئی ممالک کے ساتھ معاہدے کیے تھے جس کا مقصد ''مہمان کارکنوں‘‘ کو خاص طور پر صنعتوں کی معمولی ملازمتوں کے لیے بھرتی کرنا تھا۔
اب تک سب سے زیادہ '' مہمان کارکن ‘‘ ترکی سے آئے تھے اور اب ایک اندازے کے مطابق 3 ملین ترک نژاد باشندے جرمنی میں مقیم ہیں، جن میں سے 1.45 ملین کے پاس اب بھی ترک شہریت ہی ہے۔ جرمنی کی تنظیم (TGD) میں ترک کمیونٹی کے شریک رہنما ایلکے یُرتبے نے کہا کہ یہ اصلاحات ترکی کی اس مذکورہ نسل کے بہت سے افراد کے لیے ''بہت دیر سے‘‘ آئی ہیں - لیکن نہ آنے سے تو بہتر دیر سے آنا ہے۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گیسٹ ورکرز کی نسل کے لیے ان اصلاحات کا مطلب ان کی زندگیوں اور اس ملک میں ان کے کام کی پہچان اور ان کی محنت کا احترام ہے۔ میرے خیال میں دوسری اور تیسری نسل کے بہت سے ترک لوگ اس سے خود کو با اختیار محسوس کریں گے کیونکہ انہیں ہمیشہ شناخت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔‘‘
سینکڑوں جہادیوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے، رپورٹ
(بنجمن نائیٹ ) ک م/ ش ر