جرمنی کی اسلامائزیشن کا خوف بےوقوفی ہے، کلیسائی سفیر
20 دسمبر 2015مارگوٹ کَیسمان جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیسا کی ملکی تنظیم EKD کی سفیر ہیں، جن کا کام چرچ میں اصلاحات کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ اس خاتون کلیسائی رہنما نے برلن سے شائع ہونے والے روزنامے ’ٹاگَیس اشپیگل‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے، ’’میری خواہش ہے کہ لوگ ٹھوس بات کریں اور بتائیں کہ دراصل انہیں کون سی چیز خوفزدہ کر رہی ہے۔‘‘
آج اتوار بیس دسمبر کے روز شائع ہونے والے اس انٹرویو میں Margot Käßmann نے زور دے کر کہا، ’’جرمنی کے ممکنہ طور پر اسلامیائے جانے کے بارے میں موجود غیر واضح اور بہت مبہم خوف کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘ کَیسمان جرمنی میں پروٹسٹنٹ کلیساؤں کی ملکی تنظیم ای کے ڈی کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران دس لاکھ سے زائد تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچ چکے ہیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق مسلمان ممالک سے ہے۔ مسلمان مہاجرین کے کثیر تعداد میں جرمنی آنے کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جرمن تنظیمیں اور اسلام مخالف تحریک ’پیگِیڈا‘ یورپ اور جرمنی کی اسلامائزیشن کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔
کَیسمان نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کی دو تہائی آبادی کسی نہ کسی کلیسا کی رکن ہے۔ جرمنی میں مسلمان آبادی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے مارگوٹ کَیسمان نے کہا کہ ملک میں لاکھوں مسلمان پہلے سے آباد ہیں اور ان میں سے اکثر سیکولر نظریات رکھتے ہیں۔
جرمن پروٹسٹنٹ چرچ کی اس خاتون سفیر نے یہ بھی کہا کہ جہاں تک انتہا پسندوں کا تعلق ہے، وہ دونوں جانب پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا، ’’ایک جانب تارکین وطن کی رہائش گاہوں پر پٹرول بم پھینکے والے ہیں تو دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں، جنہیں سلفی اپنی صفوں میں شامل کر سکتے ہیں۔‘‘
کَیسمان نے، جو ایک سابقہ بشپ ہیں اور EKD کی مرکزی کونسل کی رکن بھی ہیں، جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں ’خوش آمدیدی رویے‘ کی بھی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں خدشات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتی لیکن میرا خیال میں یہ خوف اور خدشات عملی تجربات کے برعکس ہیں۔‘‘
مارگوٹ کَیسمان نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ جرمنی میں عوام ’ایک بابرکت جزیرے‘ پر رہتے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’چند روز بعد کرسمس کے موقع پر کسی جرمن گھرانے میں کھانا اس وجہ سے کم نہیں پرٹے گا کہ ہم نے اپنے ہاں تارکین وطن کو پناہ دی ہے۔‘‘