کون مہاجر، کون دہشت گرد؟ سرسری جانچ پڑتال ناکافی
7 دسمبر 2015افغان شہری حمیداللہ بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچا ہے۔ حمیداللہ کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے بلکہ صرف ایک بوسیدہ کاغذ پر اس کی شناخت درج ہے۔ يونان آمد کے بعد حمیداللہ بتاتا ہے، ’’پہلے دن ساحلی محافظوں نے میرا نام، عمر اور قومیت کے بارے میں پوچھا۔ دوسرے دن کیمپ میں اندراج کا عمل مکمل کيا گيا، جس ميں پولیس نے تصاویر اور انگلیوں کے نشان لیے اور چند سوالات پوچھے۔ اس سارے عمل میں پانچ منٹ لگے۔‘‘
حمیداللہ کے پاس تو پھر بھی ایک شناختی دستاویز موجود ہے۔ اس کے برعکس یونان پہنچنے والے بیشتر مہاجرین کے پاس عموماً کسی بھی قسم کی کوئی شناختی دستاویز نہيں ہوتی۔ یورپی یونین کو یونان میں کی جانے والی اس نوعیت کے سرسری جانچ پڑتال کے نظام پر خدشات ہیں۔ یونین کے مطابق کمزور نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد بھی مہاجرین کے روپ میں یورپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
موسم کی شدت، یورپی ممالک کی جانب سے صرف شامی، عراقی اور افغانی مہاجرین کو داخلے کی اجازت اور ترکی کی جانب سے سمندری راستے کے ذریعے یونان جانے والوں پر سختی کے باعث یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اگرچہ نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اب بھی روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔
یونانی جزیروں پر مہاجرین کی چھان بین اور جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ تاہم فرانس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث دو افراد کی شناخت کے بعد معلوم ہوا تھا کہ یہ لوگ مہاجرین کے روپ میں یورپ داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے یورپی یونین کی جانب سے یونان پر مہاجرین کے شناختی عمل کو مزید سخت کرنے کے لیے دباؤ پایا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک مہاجرین کو سرسری جائزے کے بعد مغربی یورپ کی جانب سفر کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
یونانی وزیر برائے مہاجرین، یوانِس موزالاس اعتراف کرتے ہیں کہ جانچ پڑتال کے لیے اختیار کردہ نظام موثر نہیں ہے۔ موزالاس نے یورپی یونین سے اس ضمن میں ایمرجنسی امداد کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ایتھنز کو اپنی سرحدوں کی نگرانی کے حوالے سے بھی سلوواکیہ اور ہنگری جیسے ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
مہاجرین کے موریا کیمپ میں قائم رجسٹریشن کے مرکز پر تعینات یونانی پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے، ’’زیادہ تر مہاجرین دعویٰ کرتے ہیں کہ سفر کے دوران ان کی شناختی دستاویزات گم ہو گئی ہیں۔ اسی لیے مترجم انٹریو کے دوران ایسے مہاجرین کی قومیت معلوم کرتے ہیں۔‘‘
انٹرویو لینے والے ایک افغان باشندے کے مطابق پانچ منٹ کی گفتگو کے دوران تارک وطن کی قومیت حتمی طور پر معلوم ہو جاتی ہے۔ شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس نے بتایا، ’’لب و لہجہ اور تلفظ دھوکا نہیں دے سکتے۔ مہاجرین سے ان کے علاقوں کے مقامی سیاست دانوں اور پکوانوں کے نام پوچھے جاتے ہیں جس سے ان کی اصل قومیت معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘
ایک یونانی اہلکار یورپی یونین کے اس الزام پر نالاں ہے کہ یونان دہشت گردوں اور مہاجرین میں تفریق کرنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کر رہا۔ اس کا کہنا ہے، ’’776000 مہاجرین میں سے صرف دو لوگ دہشت گرد نکلے ہیں تو انہوں نے ہم پر الزام لگا دیا۔‘‘