جرمن اور پاکستانی خواتین: عائلی اور پیشہ ورانہ زندگی کا ایک تقابل
25 اپریل 2009مغربی معاشروں میں خواتین کے لئے ان کی پیشہ ورانہ زندگی ان کی شناخت کے ایک اہم حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم جاب، کیرئیر یا پیشے اور خاندان، بچے اور گھرداری، ان تمام چیزوں کو ساتھ ساتھ لے کر کامیابی سے آگے بڑھتے رہنا ہر معاشرے کی عورتوں کے لئے دشوار گزار عمل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جرمنی میں ایک ماڈل پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے تا کہ خواتین کی زندگی میں راحت پیدا ہو سکے اور اگر پاکستان کو مقبالتاً دیکھا جائے توادھر کام کرنے والی خواتین کو گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جرمنی میں نوجوان خواتین اپنے ہم عمر مردوں کے مقابلے میں بہتر تعلیمی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر شعبے میں آگے نکلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ تاہم ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ جب عورتوں کو اپنی فیملی یا بچوں کی وجہ سے اپنے جاب کے تسلسل میں وقفہ لانا پڑے تو ان کے لئے کونسی سہولیات موجود ہیں اور ان میں کس حد تک اصلاحات کی ضرورت ہے؟
ایسی خواتین کے 80 فیصد حصے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد کچھ وقفے سے دوبارہ اپنی پیشہ ور زندگی میں فعال ہو جائیں۔ تاہم یہ سب کچھ اب تک اتنا آسان نہیں تھا۔ اب اس سلسلے میں جرمنی کے مختلف صوبوں میں 17 ماڈل پروجیکٹس متعارف کروائے گئے ہیں۔ یہ پروجیکٹس جرمنی کی خاندانی امور کی وفاقی وزارت اور جرمنی میں روزگار کے وفاقی ادارے کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔
وفاقی جرمن وزیر برائے خاندانی امور Ursula von der Leyen کے مطابق جب عورتوں سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ اپنے پیشے یا کیرئیر اور بچوں یا فیملی میں سے کس چیز کو ترجیح دیتی ہیں تو ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے۔ وفاقی وزیر اُن کے جواب کے حوالے سے کہتی ہیں کہ 80 فیصد خواتین کہتی ہیں کہ جب ان کے بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ دوبارہ اپنے پیشے کی طرف توجہ مبذول کرنا چاہیں گی۔ جب کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی56 فیصد مائیں کہتی ہیں کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو آگے بڑھانے کی خواہشمند ہیں۔
جرمنی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران خواتین کے کیرئیر یا پیشہ ور زندگی اور ان کی فیملی لائف دونوں کے فروغ کے لئے متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ مثلاٍ کام کرنے والی ماؤں کے بچوں کی ان کے کام کے اوقات کے دوران دیکھ بھال کے لئے بہت سے نئے مراکز قائم کئے گئے اور والدین کو ملنے والی مالی اور سماجی امداد میں بھی اضافہ کیا گیا۔ اس کے باوجود 25 سے 59 سال کے درمیان کی عمر والی ساڑھے تین ملین خواتین جو کم از کم ایک بچے کی ماں ہیں، کام نہیں کرتیں۔
جرمن خواتین میں آدھے دن کے کام کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ روزگار فراہم کرنے والے ادارے یا آجرین کے لئے یہ بات زیادہ پر کشش نہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ایسی خواتین جو جزوی طور پر کام کرنا چاہتی ہیں ان کی پیشہ ورانہ تربیت اور ان کے کیرئیر بنانے پر سرمایہ کاری کیوں کی جائے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
خاندانی امور کی جرمن وزیر Von der Leyen ایسی ہی خواتین کی صلاحیتوں اور کاموں پر سرمایہ کاری کو غیر معمولی اہمیت دیتی ہیں۔ یہ اور بات کہ انہیں اس ضمن میں پائی جانی والی رکاوٹوں کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ پیشہ ورانہ تربیت کی مناسبت سے جرمن وزیر کا مؤقف ہے کہ یقینا ہر عورت کی سوچ کم و بیش یہی ہوتی ہے کہ اگر میں اپنے خاندان اور گھر یلو زندگی کی دیکھ بھال نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا۔ تاہم ان کاموں اور ذمہ داریوں کا مناسب بٹوارہ ہونا چاہئے۔
جرمن وزیر نے خاص طور سے ایسی خواتین کی پیشہ ورانہ حوصلہ افزائی کے لئے ان پروجیکٹس کا آغاز کروایا ہے جو فیملی یا بچوے کے سبب اپنے کام یا جاب میں تسلسل قائم نہیں رکھ پاتیں اور جنہیں ان وجوہات کے سبب جاب کے دوران وقفہ لانا پڑتا ہے۔ ایسی خواتین کو وقفے کے بعد دوبارہ سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں فعال ہونے کے لئے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کام یا نوکری فراہم کرنے والے اداروں کو بھی ان منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے۔
جرمنی کی خاندانی امور کی جرمن وزیر Von der Leyen کا کہنا ہے کہ کام میں وقفے کے بعد جاب کی تلاش کرنے والی خواتین کو پتہ ہوتا ہے کہ کہاں کہاں ان کے لئے مواقع پائے جاتے ہیں، اور ہمیں بھی علم ہوتا ہے کہ کن کن شعبوں میں خواتین دوبارہ جاب شروع کرنے کی خواہشمند ہیں۔ اس غرض سے ہم نے ایک پل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم ایسی تجربہ کار خواتین کو، جنہیں کچھ وقفے کے بعد کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، محنت یا کام فراہم کرنے والے اداروں اور آجرین کے قریب لاتے ہیں، ان کا ایک نیٹ ورک بناتے ہیں تاکہ اس تمام عمل کو یہ سب مل کر آگے بڑھا سکیں۔
جرمنی میں شروع کردہ ان 17 ماڈل پروجیکٹس میں 123 مختلف تنظیمیں تعاون کر رہی ہیں۔