1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صوبے باویریا کا اپنی سرحدی پولیس کے قیام کا فیصلہ

12 جولائی 2018

باویریا کی پارلیمان نے اپنی سرحدی پولیس کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں ایک قرارداد بھی منظور کر لی گئی کہ باویریا سیاسی پناہ اور تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق اپنا ایک صوبائی رابطہ دفتر قائم کرے گا۔

https://p.dw.com/p/31JUt
Österreich Flüchtlinge bei Mistlberg an der Grenze zu Deutschland
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بدھ کے دن بتایا ہے کہ جرمن صوبے باویریا کی پارلیمان نے ایک ایسی سرحدی پولیس فورس کے قیام کی منظوری دے دی ہے، جو اس صوبے کی بین الاقوامی سرحدوں کی نگرانی کرے گی۔

نئی باویرین بارڈر پولیس کے اختیارات سے متعلق تفصیلات اسی ہفتے باویریا اور وفاقی حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات میں طے کر لی جائیں گی۔ یہ نئی پولیس اگست میں کام کرنا شروع کر دے گی اور اس کی نفری قریب ایک ہزار ہو گی۔

سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ باویریا صوبے کی پارلیمان نے ایک ایسی قرارداد بھی منظور کر لی ہے، جس کے مطابق باویریا صوبے میں سیاسی پناہ اور تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق اپنا ایک صوبائی رابطہ دفتر بھی قائم کیا جائے گا۔

باویریا میں تارکین وطن کو سیاسی پناہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ آئندہ بھی جرمنی کا وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور ترک وطن ہی کیا کرے گا۔

بتایا گیا ہے کہ باویریا صوبے کی پارلیمان کے نوّے اراکین نے اس قانون کی حمایت کر دی ہے جبکہ باسٹھ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اس صوبے میں برسر اقتدار سوشل ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کے مطابق ان اقدامات سے سکیورٹی کی صورتحال کو یقینی بنانے میں مدد مل سکے گی۔

دوسری طرف اس صوبے میں اپوزیشن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) ، گرین اور آزاد ارکان پارلیمان نے اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر میں  ہونے والے صوبائی انتخابات سے قبل کیے گئے یہ اقدامات دراصل ’عوامیت پسندی‘ پر مبنی ہیں اور اس کا مقصد صرف ووٹرز کو لبھانا ہے۔

جرمنی کے اس جنوبی صوبے میں سی ایس یو کو قطعی اکثریت حاصل ہے تاہم عوامی جائزوں کے مطابق آئندہ صوبائی انتخابات میں اس پارٹی کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے دائیں بازو کی مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس مظہر کی وجہ سے مرکزی سیاسی پارٹیاں کچھ پریشان بھی ہیں۔

ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے