جرمن وزیر خارجہ اچانک یمن میں
11 جنوری 2010یمنی صدر علی عبداللہ صالح سے ملاقات کے بعد ویسٹر ویلے نے کہا کہ یمنی حکام جانتے ہیں کہ یمن سے لاپتہ ہونے والا جرمن خاندان کہاں ہے۔ انہوں نے اس خاندان کی رہائی کے لئے یمنی حکام کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ یمن میں القاعدہ کی علاقائی تنظیم کی طرف سے ایک امریکی طیارے کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد کسی بھی اعلٰی یورپی اہلکار کا یہ پہلا دورہ یمن ہے۔
جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹرویلے نے اپنے اس اچانک دورے کے دوران یمن میں سلامتی کی صورتحال اور علاقائی سیکیورٹی کے علاوہ اُس جرمن خاندان کے مستقبل کے بارے میں بھی مذاکرات کئے جسے جون میں شمالی یمن سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس اغوا شدہ جرمن خاندان میں تین بچے بھی شامل ہیں۔
ویسٹرویلے نے یمنی صدر علی عبداللہ صالح سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ یمن میں سرکاری حکام کو علم ہے کہ اغوا کاروں نے مغوی جرمن خاندان کو کہاں قید کر رکھا ہے۔ پانچ افراد پر مشتمل یہ جرمن خاندان ایک برطانوی شہری اور ایک جنوبی کوریائی باشندے کے ہمراہ اغوا کیا گیا تھا۔
کوریائی باشندے کو اغوا کے فورا بعد ہی ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ گزشتہ ہفتہ کو ہی یمنی حکام نے تصدیق کی تھی کہ تمام جرمن شہری اور برطانوی باشندہ ابھی تک زندہ ہیں۔ ایسی رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ اغوا کی اس ورادات کے پیچھے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا ہاتھ ہے۔
ویسٹرویلے پہلے ترکی اور پھر سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے اپنے طے شدہ دوروں کے بعد پیر کے دن اچانک صنعاء پہنچے۔ ویسٹرویلے کے وفد میں شامل ایک سفارت کار نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد جرمن وزیر نے اچانک ہی یہ فیصلہ کیا کہ یمن کی صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے لئے وہ وہاں جائیں گے۔ اس سفارت کار نے مزید بتایا کہ جرمن وزیر خارجہ سمجھتے ہیں کہ یمن میں عدم استحکام کے منفی اثرات سے پورا خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ویسٹرویلے نے اپنے اس دورے کے بارے میں یورپی اور امریکی حکام کو پہلے ہی بتا رکھا تھا۔ اس دورے کے دوران جرمن وزیر نے یمن میں ریاستی رہنماؤں کو یقین دلایا کہ اس ملک میں داخلی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے عرب دنیا اور یورپی ممالک یمن کے ساتھ ہیں۔
لندن اور امریکہ کے کئی سفارت کاروں نے زور دیا ہے کہ یمن میں انسداد دہشت گردی کے لئے وہاں خصوصی دستے تعینات کئے جائیں۔ تاہم اتوار کو ہی امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ فوری طور پر یمن میں اپنے فوجی دستے بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ دریں اثناء یمنی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ملک میں موجود القاعدہ کے جنگجوؤں سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ جرمنی یمن کو مالی امداد دینے والا یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اتوار کوویسٹرویلے نے اپنے دورہ متحدہ عرب امارات کے دوران ایران پر ایک مرتبہ پھر زور دیا تھا کہ وہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کے سلسلے میں اقوام متحدہ سے تعاون کرے۔ اپنے جرمن ہم منصب سے ملاقات کے بعد متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد النہیان نے امید ظاہر کی کہ ایران اس حوالے سے تعاون کرے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک