جرمن چانسلر خلیجی ملکوں کے دورے پر
24 مئی 2010جرمن چانسلرخلیجی ممالک کے اس دورے کے دوران بات چیت کے ایجنڈے پرسیاسی مذاکرات میں علاقائی سلامتی، ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام اور مشرق وسطیٰ کے پیام امن کے عمل کو مرکزی اہمیت حاصل ہوگی۔ تاہم یورپ کے موجودہ کرنسی بحران یعنی ’یورو کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر‘ اور یورپی ممالک کو مستقبل میں درکار خام تیل جیسے مسائل کے بارے میں بات چیت بھی جرمن چانسلر کے خلیجی ممالک کے اس دورے کے ایجنڈا میں شامل ہوگی۔ کیا ایک ایسے وقت میں جب کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کو مشترکہ کرنسی ’ یورو‘ کے استحکام کے سلسلے میں شدید بحران کا سامنا ہے، جرمن چانسلر کا یہ دورہ مناسب ہے؟ اس بارے میں جرمن چانسلر کے خارجہ سیاسی امور کے ایک مشیر ’کرسٹوف ہوسگن‘ کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر کا متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور قطر کا یہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ مضبوط یورو ان تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔ یورپی کرنسی یورو کے حالیہ بحران کے دوران بھی یہ خلیجی ممالک نہایت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ سرمایہ کاری کے ذریعے۔ مثال کے طور پر بڑے کارساز ادارے Volkswagen اور Porsche میں قطر نے جس طرح سرمایہ کاری شروع کی ہے‘۔
پیر کے روز اپنے دورے کی پہلی منزل ابو ظہبی پہنچ کر جرمن چانسلر محض اس خلیجی ملک کی طرف سے اقتصادی شعبے میں تعاون کا شکریہ ہی ادا نہیں کریں گی بلکہ وہ اس خطے میں جرمنی کے ٹھوس اقتصادی مفادات کا دفاع بھی کریں گی جس کے لئے وہ اپنے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی تجارتی اور اقتصادی وفد بھی اُن کے ہمراہ ہے۔ Siemens ، جرمن ریلوے ، گیس کی بڑی کمپنی Eon-Ruhrgas اور کسی دیگر بڑی کمپنیوں کے سربراہان جرمن چانسلر کے ساتھ خلیجی ممالک کے دورہ کر رہے ہیں۔ ان سب کی کوشش ہے کہ تیل سے مالا مال خلیجی ممالک ان کے ساتھ بڑی بڑی کاروباری شراکت داری اور ٹھیکوں کی حامی بھریں ۔
جرمنی کے ایوان صنعت و تجارت DIHK کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق خلیجی ممالک میں اس وقت کم از کم 2.8 بلین ڈالر کی مالیت کے پروجیکٹس ملنے کی امید ہے۔ جن میں رہائشی مکانات کی تعمیر، پینے کے صاف پانی کی تنصیبات، اور بجلی کے پلانٹس جیسے روایتی پروجیکٹس کے علاوہ بہت سے دیگر شعبوں میں بھی جرمنی کو خلیجی ممالک سے بڑے بڑے ٹھیکے ملنے کی اُمید ہے۔ جرمن ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کے باعث اقتصادی ترقی کی شرح بمشکل پانچ فیصد سے نیچے نہیں جا سکی تھی کیونکہ خلیجی ریاستوں کا تعاون شامل تھا اور اس کی وجہ ان ممالک میں پایا جانے والا بیش بہا تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر ہیں۔ سن 2008 ء میں عالمی اقتصادی بحران کے سامنے آنے تک جرمنی کی خلیجی ممالک کے ساتھ سن 2000 ء کے مقابلے میں برآمدات تین گنا بڑھ چکی تھی۔ تاہم سن 2008 ء سے کساد بازاری نے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا اور نتیجتاً جرمنی کی خلیجی ممالک کے ساتھ برآمدات سُکڑ کر 13.7 بلین یورو ہو گئی۔
25 مئی منگل کے روز جرمن چانسلر ابو ظہبی میں قائم کاربن ڈائی اُکسائیڈ سے پاک دنیا کے پہلے شہر ’مصدر‘ جائیں گی۔ اُس کے بعد میرکل سعودی عرب پہنچیں گی جہاں وہ حال ہی میں سعودی عرب کی کوششوں سے یمن میں اغوا ہونے والی دو جرمن بچیوں کی بازیابی کا شکریہ ادا کریں گی۔ سعودی عرب میں اقتصادی اور تجارتی شعبے کے چوٹی کے اہلکاروں سے ملاقات کے علاوہ جرمن چانسلر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات سے خطاب بھی کریں گی۔ یہ سعودی عرب کی پہلی مخلوط جامعہ ہے۔ بدھ کو جرمن چانسلر دوہا میں ہوں گی اور جمعرات کو بحرین میں ان کے سیاسی مذاکرات طے ہیں جس کے بعد وہ اُسی شب وطن واپسی کے لئے روانہ ہو جائیں گی۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حسین