1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر کا مجرموں کی ملک بدری کا منصوبہ تنقید کی زد میں

7 جون 2024

اولاف شولس نے ایک افغان پناہ گزین کے ہاتھوں ایک جرمن پولیس آفیسر کے قتل کے بعد مجرمان کی ملک بدری کی تجویز پیش کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جرمنی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4glg2
Symbolbild El Salvador Handschellen Festnahme
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون واضح طور پر افغانستان اور شام میں کسی بھی ملک بدری کی ممانعت کرتا ہےتصویر: Anna Tolipova/AnnaStills/picture alliance

جرمنی میں پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والے گروپ پرو ایزیل نے جرمن چانسلر اولاف شولسکی سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو افغانستان اور شام واپس بھیجنے کی تجویز دینے مزمت کی ہے۔ پرو ایزیل کے مینیجنگ ڈائریکٹر کارل کوپ کے آج جمعے کے روز جرمن اخبار آگس برگر آلجیمین میں شائع کردہ بیان میں کہا گیا ہے،''بین الاقوامی قانون واضح طور پر افغانستان اور شام میں کسی بھی ملک بدری کی ممانعت کرتا ہے۔‘‘

کوپ نے جرمن چانسلر شولس کے مجوزہ منصوبوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا، '' یہ دونوں ممالک تشدد اور غیر انسانی سزاؤں کے استعمال کے لیے مشہور ہیں۔‘‘ شولس نے جمعرات کے روز ایک بار پھر سنگین جرائم میں ملوث افراد  کو ملک بدر کر کے واپس  افغانستان اور شام بھجوانے کی تجویز پیش کی۔ جرمن چانسلر نے پہلی بار یہ  تجویز جرمنی کے شہر مان ہائیم میں ایک اسلام مخالف ریلی میں چاقو کے وار سے ایک پولیس افسر کی حالیہ موت کے بعد پیش کی تھی۔

Berlin | Olaf Scholz - Regierungserklärung
شولس کا کہنا تھا کہ سنگین وارداتوں میں ملوث مجرموں کو ملک بدر کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شام اور افغانستان سے ہی کیوں نہ ہوںتصویر: Sean Gallup/Getty Images

شولس نے جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کو بتایا، ''ایسے مجرموں کو ملک بدر کیا جانا چاہیے۔ چاہے وہ شام اور افغانستان سے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''سنگین مجرموں اور جن لوگوں سے دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں، ان کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘چانسلر نے اس بات کی قطعی وضاحت نہیں کی کہ وہ یہ کیسے ممکن بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 لیکن  ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ اس کے عملی نفاذ پر کام کر رہی ہے اور اس بارے میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ پہلے ہی بات چیت کر رہی ہے۔ ایک افغان شہری نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی شہر من ہائم میں اسلام مخالف تحریک پاکس یورپا کی ایک ریلی کے دوران متعدد افراد کو چاقو کے وار کر دیا تھا۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئےتھے۔

کوپ نے کہا، ''من ہائیم میں ہونے والے حملے نے ہم سب کو چونکا دیا ہے لیکن جرمن حکومت کو بین الاقوامی قانون کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے اسے جرمن آئینی ریاست کے وسائل پر انحصار کرنا چاہیے۔‘‘

جرمنی کے شہر مان ہائیم میں ایک اسلام مخالف ریلی میں چاقو کے وار سے ایک پولیس افسر کی موت ہو گئی تھی
جرمنی کے شہر مان ہائیم میں ایک اسلام مخالف ریلی میں چاقو کے وار سے ایک پولیس افسر کی موت ہو گئی تھیتصویر: Uwe Anspach/dpa/picture alliance

انہوں نے مزید کہا، ''تشدد کی ممانعت مجرموں سمیت ہر ایک پر لاگو ہوتی ہے۔ اس اہم اصول کو پامال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے جرمنی نے کسی کو بھی افغانستان واپس نہیں بھیجا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ معاہدہ تھا کہ صرف مرد خاص طور پر جرائم پیشہ اور ایسے افراد، جن  سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے، کو زبردستی واپس کیا جائے گا۔

ش ر⁄ ع ب (ڈی پی اے)