جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
27 ستمبر 2010اخبار Süddeutsche Zeitung نے پاکستان کے ايک ممتاز صحافی اور افغانستان کے امور کے ماہر احمد رشيد کا ايک شخصی خاکہ شائع کيا ہے۔ انگريزی ميں شائع ہونے والی کتاب ’’انتشار کا نزول: امريکہ پاکستان، افغانستان اور وسطی ايشيا ميں قومی تشکيل کے عمل ميں ناکام‘‘ کے مصنف احمد رشيد حال ہی ميں جرمنی بھی آئے تھے۔ اخبار تحرير کرتا ہے:
’’فائنانشل ٹائمز نے احمد رشيد کو ايک کھلاڑی کہا ہے۔ Global Players عام طور پر رياستوں، عالمی تجارتی اداروں يا اہم سياستدانوں کو کہا جاتا ہے ليکن يہ بات بالکل غير معمولی ہے کہ ايک صحافی بڑی طاقتوں کے کھيل ميں دخيل ہو۔ رشيد ان سب ہی سے واقف ہيں: جارج بش، باراک اوباما، جنرل پيٹريئس، پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرويز مشرف، موجودہ صدر آصف زرداری اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی۔
وہ دوسرے سربراہان مملکت، افغان وار لارڈز يا جنگجو سرداروں اور پاکستانی خفيہ سروس کے سربراہوں کو بھی جانتے ہيں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے علاقے کے ايسے بہت سے سربراہوں کو بھی جانتے ہيں، جو ايک عرصہ ہوا، دُنیا سے جا چکے ہيں، جنہيں قتل يا غائب کرا ديا گيا اور جنہيں بھلايا جا چکا ہے۔ جو کوئی بھی احمد رشيد سے ملتا ہے، وہ ان سب شخصیات کے بارے ميں بہت کچھ جان سکتا ہے۔ رشيد جنوبی ايشيا کے خطے پر بہت گہری نظر رکھتے ہيں۔‘‘
سيلاب کی تباہی کے اثرات سے نمٹنا پاکستانی سياستدانوں کے بس سے باہر معلوم ہوتا ہے۔ پاکستانی صحافی احمد رشيد کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے اسلام کا نام لينے والے شدت پسندوں نے فائدہ اٹھايا ہے۔ رشيد نے اخبار Tageszeitung کو دئے گئے ايک انٹرويو ميں کہا:
’’پاکستان کی غير سرکاری تنظيموں کے لئے ايسے رضاکار ڈھونڈنا بہت مشکل ہے، جو امدادی اشیاء تقسیم کر سکيں۔ ليکن اسلامی تنظيموں نے ايسے ہزاروں لوگ بھرتی کر لئے ہيں، جو شديد مشقتيں جھيلنے کے لئے بھی تيار ہيں۔ يہ تنظيميں زيادہ تر ملک کے شمال ميں ہيں، جہاں لڑائی ہو رہی ہے۔ ان علاقوں ميں سيلاب خاص طور پر شديد تھا۔ اس وجہ سے يہ ممکن ہے کہ اِنہيں وہاں سے نئے حامی مل گئے ہوں۔
اِنہوں نے کشمير ميں زلزلے کے بعد بھی بہت تيزی سے نئے مذہبی مدرسے تعمير کر لئے تھے۔ سرکاری اسکول زلزلے ميں تباہ ہو گئے تھے اور يوں يہ مدرسے بھرتی کے اضافی مراکز بھی بن گئے۔ فوج بھی سياسی طور پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لئے اس صورتحال سے کاميابی کے ساتھ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ حکومت کے برعکس فوج نے بہت بڑے پيمانے پر امدادی کام انجام ديے۔ اِس کے لئے اُس کے پاس سازوسامان بھی ہے۔
بعض سياستدان کھلے عام فوج کے حکومت سنبھالنے کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ يہ ايک تباہی ہو گی۔ ميں نہيں سمجھتا کہ فوج اس تباہ کن صورتحال ميں اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہشمند ہے۔ سيلاب کے بعد اگر لاکھوں افراد مسلسل امداد سے محروم رہے، تو پھر حالات خطرناک رُخ اختيار کر سکتے ہيں۔ بہت بڑے ہنگاموں کی صورت ميں صورتحال حکومت کے قابو سے باہر بھی ہو سکتی ہے۔ پوليس ميدان چھوڑ جائے گی۔ پھر فوج کے علاوہ کون باقی رہ جائے گا۔‘‘
پاکستان ميں سيلاب کی قدرتی آفت شروع ہونے کے دو ماہ بعد اقوام متحدہ نے مدد کی ايک نئی اپيل کی ہے۔ اب اُس کا اندازہ ہے کہ دو ارب ڈالر کی مدد درکار ہو گی۔ تاہم اخبار Neue Züricher Zeitung لکھتا ہے کہ امداد دينے والے ملک ہچکچا رہے ہيں۔ کئی بڑی قدرتی آفات کے بعد اب بہت سی حکومتيں زیادہ فراخدلی پر آمادہ نہيں ہيں۔
اس کے علاوہ يہ بھی حقيقت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امدادی رقوم کے استعمال سے متعلق بجا طور پر شکوک پائے جاتے ہيں۔ امريکی وزير خارجہ ہليری کلنٹن نے نيويارک ميں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کيا کہ وہ ملک ميں رشوت اور بے ايمانی کے سيلاب کو روکنے کا کوئی انتظام کرے اور تعمير نو کے سلسلے ميں نظم اور شفافيت کو ممکن بنائے۔اس کے علاوہ کلنٹن اورمغربی ممالک کے دوسرے وزراء نے پاکستان سے يہ مطالبہ بھی کيا کہ وہ اپنی مدد آپ کرے اور ملک کے اندر زيادہ رقوم اکٹھی کرے۔
تقريباً تمام اندازوں کے مطابق بھارت21 ويں صدی کے وسط تک چين اور امريکہ کے بعد دنيا کی تيسری بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا۔ اخبار Handelsblatt لکھتا ہے کہ آبادی ميں جاری اضافے کی وجہ سے اقتصادی طاقت بھارت کی صورتحال طویل المدتی بنیادوں پر چين سے بہتر ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 20 سال کے بعد بھارت دنيا کا سب سے زيادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔
بھارت ميں ملازمت کے قابل افراد کی شرح ميں اضافہ ہو رہا ہے ليکن چين ميں اُن کی شرح گھٹ رہی ہے۔ يہ بھارت کی اقتصادی ترقی کے لئے سب سے بڑا موقع ليکن سب سے سنگين خطرہ بھی ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ آبادی کے اضافے کا فائدہ ايک بڑے نقصان ميں بھی تبديل ہو سکتا ہے۔ بھارت کی اقتصادی ترقی کے نتيجے ميں وہاں شہروں کے متوسط طبقے کی خوشحالی کی زريں داستانوں کے بالمقابل 500 ملين بھارتی شہری شديد غربت کا شکار ہيں۔ اُن کی يہ تعداد پورے افريقہ کے غرباء سے بھی زيادہ ہے۔
اگر حکومت کو تعليمی نظام ميں بڑی خرابيوں کو دور کرنے ميں کاميابی ہوجاتی ہے، تب ہی بھارت بين الاقوامی مقابلے میں اپنی افرادی قوت کو استعمال کرنے ميں واقعی کامياب ہو سکتا ہے۔ صرف اُسی صورت ميں بھارت کی اقتصادی قوت سماجی خليج کو اور زيادہ گہرا کر دينے کی بجائے ملک کے وسيع طبقوں کی حالت بہتر بنانے کا کام کر سکتی ہے۔
ترتیب: آنا لیہمان / ترجمہ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی