1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جوہری طاقتیں اپنے ہتھیاروں کی جدید کاری میں مصروف ہیں‘

15 جون 2020

ایک تازہ تحقیق کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک میں ایسے اسلحوں کو جدید ترین بنانے کا تشویش ناک رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے جس سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں مسابقت کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3dlb1
Trident
تصویر: picture-alliance/PA

سویڈین کے معروف ادارے، 'اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ' (ایس آئی پی آر آئی) نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں میں کمی کے باوجود جن ممالک کے پاس ایسے ہتھیار ہیں وہ تیزی سے ان کی جدید کاری میں مصروف ہیں۔اس کے مطابق اس رجحان سے جوہری ہتھیاروں پر قابو پانے کی سمت میں کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

سویڈین کے اس معروف ادارے کے مطابق، ''2020 کے اوائل تک امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے جوہری ہتھیاروں سے لیس نو ممالک کے پاس ایک تخمینے کے مطابق 13 ہزار 400 جوہری ہتھیار تھے۔''

اس رپورٹ کے مطابق چین کے پاس تقریبا 320 جوہری ہتھیار ہیں جبکہ پاکستان کے پاس 160 اور بھارت کے پاس 150 تک مختلف قسم کے جوہری اسلحے ہیں۔

اس ادارے کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں 465 ہتھیاروں کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ذخیرہ امریکا اورر وس کے پاس ہے اور یہ کمی بھی ان دو ممالک کی کوششوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔

امریکا اور روس کے درمیان 2010 میں جوہری اسلحوں کے تحفیف کے لیے 'نیو اسٹریٹیجک آرمز ریڈیکشن ٹریٹی' (ایس ٹی اے آر ٹی)  کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں جوہری ہتھیاروں کی تعینایتی کو محدود کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ اس معاہدے کی معیاد فروری 2021 تک ہے جس کے بعد یہ ختم ہوجائے گا اور دونوں ملکوں میں سے کسی نے بھی ابھی تک اس کی تجدید کا عزم نہیں کیا ہے۔

ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ کے مطابق ''دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کے تحت جو حدود مقرر کی گئی تھیں اس پر فریقین کم و بیش قائم رہے اور حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ لیکن ان کے پاس وار ہیڈز، میزائل، جنگی جہازوں کی ترسیل کا نظام، اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات کو جدید بنانے اور پرانے کی جگہ نئے تیار کرنے کا وسیع اور مہنگا ترین پروگرام جاری ہے۔''

Faslane I  HM Naval Base Clyde
تصویر: picture-alliance/D. Lawson

 جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی اور تخفیف کے سلسلے میں روس اور امریکا کے درمیان جو معاہدہ ہے اس کی وجہ سے دونوں کے درمیان مقابلے کے بجائے کنٹرول کی بات ہوتی ہے۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے اس طرح کے معاہدے کی عدم

 موجودگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔ روس اور امریکا کے درمیان اس موضوع پر بات چیت نہ ہونے سے جوہری ہتھیاروں کے لیے مقابلہ آرائی شروع ہونے کا امکان ہے۔'' 

امریکا اور روس کے بعد سب سے زیادہ جوہری اسلحے چین کے پاس ہیں اور اس سلسلے میں امریکا اور روس  کے درمیان جو معاہدہ ہے اس میں چین شامل نہیں ہے۔ امریکا کا اصرار ہے کہ موجودہ صورت حال میں چین کو بھی اس طرح کے معاہدے کا حصہ ہونا چاہیے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے واشنگٹن کو اس معاہدے کو جاری رکھنے میں دلچسپی کم ہے اور اس کی تجدید سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔

 ایس آئی پی آر آئی کا کہنا ہے کہ چین نے روایتی فوجی شعبوں میں اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ، اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ 

ادارے کا کہنا ہے، ''چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کے اہم دور میں ہے۔ وہ پہلی بار نام نہاد ایسی جوہری تثلیث بنانے میں مصروف ہے، جو زمین اور سمندر پر مبنی نئے میزائیلوں اور جوہری صلاحیت والے جہازوں پر مشتمل ہے۔''

ماہرین کا کہنا ہے امریکا کے جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی سے متعلق معاہدے کی تجدید نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اب اس میں چین کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن چین نے اپنے اسٹریٹیجک ہتھیاروں کے سلسلے میں کسی بھی مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

تازہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ اور فرانس نے بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے کا کام شروع کردیا ہے۔

ص ز / ج ا (روئٹرز ای ایف ای)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں