جوہری ہتھیار بنانے پر غور ضرور کیا تھا، سابق ایرانی صدر
29 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق ایرانی سربراہ مملکت علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تہران حکام نے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے بارے میں سوچا ضرور تھا لیکن اس ارادے پر کبھی بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ایرانی جریدے ’نیوکلیئر ہوپ‘ یا ’جوہری امید‘ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے رفسنجانی کا مزید کہنا تھا، ’’جوہری پروگرام جب شروع کیا گیا تو اس وقت ہم جنگ میں مصروف تھے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ شاید دشمن ہمارے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرے۔ ایٹم بم بنانا صرف ایک سوچ تھی اور یہ کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔‘‘
1980ء کی دہائی میں ایران اور عراق کے مابین تباہ کن جنگ آٹھ سال تک جاری رہی تھی۔ اس دوران صدام دور کے عراق کے پاس جوہری ٹیکنالوجی موجود تھی۔ جنگ کے دوران صدام نے کبھی بھی کوئی جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیا تھا تاہم عراق کی جانب سے کیمیائی ہتھیار ضرور استعمال کیے گئے تھے۔
اس جنگ کے دوران رفسنجانی ایرانی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور جنگ کے اختتام کے کچھ ہی عرصے بعد وہ منصب صدارت پر فائز ہوئے تھے۔ ’’بنیادی طور پر ہمیشہ سے ہمارا اصول پر امن جوہری ٹیکنالوجی کا حصول تھا۔ لیکن اس دوران یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں تھی کہ اگر ہمیں کسی دن دھمکایا گیا اور ہمارے لیے ضروری ہوا، تو ہم بھی اس راستے پر چل پڑیں گے۔‘‘
اس دوران رفسنجانی نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے دورے کے موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ ڈاکٹر قدیر کو پاکستانی جوہری پروگرام کا خالق کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر قدیر 2004ء میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے اب تک سب سے بڑے اسیکنڈل میں ملوث تھے۔ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے خفیہ جوہری راز ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو فروخت کیے تھے۔