خفیہ راز افشا کرنے والی چیلسی میننگ کی رہائی
10 مئی 2019بظاہر چیلسی میننگ کو رہائی تو مل گئی ہے لیکن اس خفیہ راز افشا کرنے والی سابقہ امریکی فوجی کو اگلے ہی ہفتے ایک عدالتی حکم کے تحت ایک اور گرینڈ جیوری کا سامنا ہے۔ میننگ کے وکیل کی جانب سے یہ ابھی سے واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی کسی بھی جیوری کے سوالات کے جوابات دینے سے گریز کریں گی۔
چیلسی میننگ نے جس جیوری کے سامنے سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا تھا، اُس کے قیام کی دستوری مدت بھی دس مئی کو ختم ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر چیلسی نے اگلے ہفتے گرینڈ جیوری کے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا تو اُنہیں ایک مرتبہ پھر ایسی ہی سزا کا سامنا ہو سکتا ہے۔
چیلسی میننگ کے وکلاء کے مطابق گرینڈ جیوری میں اُن کی مؤکلہ کو ایسے سوالات کا سامنا تھا جن کا تعلق وکی لیکس کو خفیہ فائلوں کی فراہمی سے تھا۔ دوسری جانب یہ بھی ابھی تک واضح نہیں کہ امریکی وفاقی استغاثہ چیلسی میننگ کو جیوری کے سامنے حاضر ہونے کے لیے کیوں مجبور کر رہا ہے۔ جیوری کی کارروائی کے حوالے سے میننگ کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی بند کمرے میں کی جا رہی ہے اور اس میں شفافیت کم ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر امریکی حکام وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کی برطانیہ سے حوالگی میں کامیاب ہو گئے تو چیلسی میننگ کا معاملہ پھر سے امریکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں حیثیت اختیار کر جائے گا۔
چیلسی میننگ کو سن 2010 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ بغداد میں تعینات تھیں۔ انہوں نے تقریباً سات لاکھ خفیہ امریکی دستاویزات کے علاوہ کئی ویڈیوز بھی وکی لیکس کو فراہم کی تھیں۔ ان میں وہ ویڈیو بھی شامل تھی، جس میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کئی عام شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
چیلسی میننگ کی پینتیس برس کی سزا کو سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کم کر کے سات برس کر دیا تھا۔ وہ مئی سن 2017 میں سزا مکمل ہونے پر رہا کی گئی تھیں۔