خیبر پختونخوا: متعدد دھماکوں میں دو فوجیوں سمیت آٹھ ہلاک
23 نومبر 2023پاکستان کے صوبے خیبر پختوانخوا کے تین اضلاع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں بدھ کے روز یکے بعد دیگرے ہونے والے بم دھماکوں میں دو سیکورٹی اہلکار اور چھ عام شہری ہلاک ہو گئے۔ ان واقعات میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
افغان مہاجرین کی ملک بدری، پاکستان کے لیے سکیورٹی چیلنج؟
پاکستانی فوج کی میڈیا ونگ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق کرک کے رہائشی 33 سالہ لانس نائیک احسان بادشاہ اور کرم سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ لانس نائیک ساجد حسین شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں ہونے والے ایک دیسی ساختہ بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔
پاکستان کا افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کا الزام
جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ایک اور بم دھماکے میں ایک قبائلی رہنما اور ان کے بیٹے سمیت تین افراد ہلاک ہوئے۔ بدھ کے روز ہی باجوڑ میں دو دھماکے ہوئے، جس میں سے ایک میں تین افراد ہلاک اور دوسرے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔
ایک آپریشن میں آٹھ عسکریت پسند ہلاک، پاکستانی فوج کا دعویٰ
ان دھماکوں کے بعد آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا کہ علاقے میں موجود کسی بھی عسکریت پسند کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔"
پاکستانی سرحد پر شدت پسندوں کا حملہ، چار سکیورٹی اہلکار ہلاک
جنوبی وزیرستان میں غنڈی کے علاقے میں ہونے والے دھماکے میں جو افراد ہلاک ہوئے ان کی شناخت قبائلی رہنما اسلم نور اور ان کے آٹھ سالہ بیٹے ہلال خان اور ایک دیگر شخص صواب خان کے نام سے کی گئی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق ’بم ایک دکان کی چھت پر رکھا گیا تھا اور اسلم نور جیسے ہی دکان پر پہنچے، وہ پھٹ گیا‘۔
نور کو سن 2021 میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے پر مدد کرنے میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
باجوڑ میں جو افراد ہلاک ہوئے ان کی شناخت جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبدالسلام حقانی کے بیٹے عبدالستار کے طور کی گئی ہے، جبکہ وہاں پر موجود دو عام شہری بھی مارے گئے۔
اطلاعات کے مطابق تحصیل مومند میں عبدالستار ایک جنازے میں شرکت کے بعد گھر واپس جارہے تھے، تبھی راستے میں بم دھماکہ ہوا۔ مقامی لوگوں اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں نیاز امین، ابراہیم اور حاجی مندرو بھی زخمی ہوئے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں میں تشدد کی لہر میں ایک نئی شدت دیکھی گئی ہے، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں، جہاں مقامی شہری امن کی بحالی کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔
ان سرحدی علاقوں میں طالبان کے دوبارہ منظم ہونے سے حکومت اور مقامی عوام میں دونوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں نے متعدد بار سکیورٹی فورسز پر منظم حملے کیے ہیں، جس میں اب تک درجنوں سکیورٹی فورسز ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سرحدی علاقوں میں ممنوعہ گروپ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے کئی بار سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ہے اور ایسے حملوں میں کمی کے بجائے وقت کے ساتھ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ گروپ حملوں کے بعد سرحد پار کرکے افغانستان میں پناہ لیتے ہیں۔ اس کا یہ بھی الزام ہے افغان طالبان نے انہیں روکنے جیسے اقدام کرنے کے بجائے انہیں ایک طرح سے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
چند روز قبل ہی افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی سفارتی نمائندے آصف درانی نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) در اصل کابل کے طالبان حکمرانوں کے زیر اثر ہے اور اسلام آباد کے لیے یہ بات ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ہی کافی پریشان کن بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ہمارے لیے اس حقیقت کا ادراک ناقابل فہم ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگ، جو افغانستان میں رہتے ہیں، ان کے (افغان طالبان) کے کنٹرول میں ہیں۔ انہیں پاکستان کی سرحد عبور کرنے، تخریب کاری کی سرگرمیاں کرنے، قتل عام کرنے اور پھر واپس جانے کی بھی اجازت ہے۔"
ص ز/ ع ب (نیوز ایجنسیاں)