1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوہری شہریت کے حامل انتخابی امیدوار: حب الوطنی پر سوال

26 جون 2018

عام انتخابات کے لیے کاغزات نامزدگی جمع کرانے والے 122 امیدواروں کی دوہری شہریت سامنے آنے پریہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا یہ سہو تھا یا دانستہ جھوٹ؟ اور کیا دوہری شہریت کا حامل شخص محب الوطن نہیں ہو سکتا؟

https://p.dw.com/p/30IgR
Flagge Pakistan
تصویر: picture-alliance/empics/D. Farmer

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے رائے دہی کے حق کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کونہ صرف کبھی اعتراض نہیں ہوا بلکہ گزشتہ پانچ انتخابات میں بیشترسیاسی جماعتیں اس کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ حق بیرون ملک مقیم چھ ملین سے زائد پاکستانی شہریوں کو تکنیکی طور پر حاصل تو ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس ایسے شہریوں کی طرف سے ووٹ کا حق استعمال کیے جانے کو ممکن بنانے اور ان کو ممکنہ انتخابی تربیت دینے کی استعداد کبھی موجود نہیں رہی۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ انتخابی قوانین دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کوصرف بطور ووٹرحصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ تاہم پاکستان کے نئے انتخابی قوانین میں امیدواروں کی انتخابی اہلیت کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنی موجودہ یا سابقہ دوہری شہریت کا حلفیہ اقرار کرے اورغیرملکی شہریت کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے سے کم از کم ایک دن پہلے تک مسلمہ اور مصدقہ طور پر ترک کرے۔

122 انتخابی امیدواروں کے پاس دوہری شہریت

پاکستان الیکشن کمیشن کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لیے مجموعی طور پر 21.482 انتخابی امیدواروں کی ظاہر کردہ تفصیلات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ ان امیدواروں میں سے 60 کو برطانیہ کی، 26 کو امریکا کی، 24 کو کینیڈا کی، تین کوآئرلینڈ کی، دو کو بیلجیم کی اورباقی کئی امیدواروں کو دیگر ممالک کی دوہری شہریت کا حامل پایا گیا۔

مربوط جانچ پڑتال کا آن لائن نظام

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر میڈیا ریلیشنز الطاف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جانچ پڑتال کا ایک آن لائن نظام بنا رکھا ہے، جو ہمارے صدر دفتر سے منسلک ہے۔ اس نظام میں بہت سے پاکستانی اداروں کو شامل کیا گیا ہے جن میں ایف آئی اے، نادرہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو یا ایف بی آر وغیرہ شامل ہیں۔‘‘

Pakistan Parlament in Islamabad
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

الطاف احمد کے مطابق،''ان قومی اداروں کو اس لیے ساتھ رکھا گیا ہے کہ اس بات کی بلاتاخیر تصدیق ہو سکے کہ امیدوار کے بیان کردہ مندرجات درست ہیں اور وہ اہلیت کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ جانچ کہ وہ قرض نادہندہ تو نہیں یا وہ دوہری شہریت کا حامل تو نہیں۔ ہم اپنی طرف سے مکمل تحقیق کے بعد الیکشن کمیشن کو نتائج سے آگاہ کر دیتے ہیں۔‘‘

بلوچستان: پرانے چہروں کا نیا انتخاب

پاکستانی الیکشن کمیشن کے اس اعلیٰ اہلکار کے مطابق، ’’اس مرتبہ ایف آئی اے نے ہمیں بتایا ہے کہ کل انتخابی امیدواروں میں سے 122 ایسے ہیں، جو پاکستانی کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے ملک کی دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔ کمیشن نے یہ معلومات فوری طور پر متعلقہ افسران تک پہنچا دیں۔ اب وہ اس امر کے مجاز ہیں کہ وہ ان امیدواروں سے متعلق کیا فیصلے کرتے ہیں۔ ملکی قوانین کا تو یہ واضح تقاضا ہے کہ جب کوئی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اگر وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی رکھتا تھا، تو کم از کم ایک روز پہلے تک وہ یہ غیر ملکی شہریت ترک کر چکا ہو۔‘‘

کیا امیدوار کے لیے دوہری شہریت ایک جرم ہے؟

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور نے کہا، "سپریم کورٹ  کے طلب کردہ حلفیہ بیان کے مطابق ہر امیدوار کو پاکستان کا شہری ہونا چاہیے اور لازم ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ رکھتا ہو۔ لیکن اگر کوئی امیدوار جھوٹ بولتا ہے، اور اپنی دوہری شہریت چھپاتا ہے، تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وہ نااہل قرار پائے گا اور اسے تعزیرات پاکستان کے تحت سزا بھی ہو گی کیونکہ وہ آئین پاکستان کی شق نمبر باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت صادق اور امین نہیں رہتا۔‘‘

فوری طور پر دوہری شہریت ترک کر سکنے کے حوالے سے انور قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بہت سے ممالک کے اپنے اپنے قومی قوانین ہیں۔ ان قوانین کے مطابق جب کوئی غیر ملکی کسی نئے ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، تو اس کو حلف اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح جب وہ متعلقہ ملک کی شہریت چھوڑتا ہے، تو بھی اسے حلفا کہنا پڑتا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اس ملک کی شہریت کا دعویدار نہیں ہو گا۔ اس لیے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ اتنے کم وقت میں کوئی امیدوار فوری طور پر اپنی غیر ملکی شہریت ترک کر سکے۔‘‘

اثاثوں کی غلط مالیت اور انتخابی نااہلی کا خطرہ

تحریک انصاف کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی خیال زمان اورکزئی کے خیال میں،'' الیکشن کمیشن کو ایسے انتخابی امیدواروں کو فوری اور سخت سزا سنانی چاہیے۔‘‘ اسی طرح راولپنڈی کے رہائشی تابش حسن کے مطابق،''دوہری شہریت کے حامل شخص کو ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے لیکن عوامی نمائندگی کا نہیں اور نہ ہی انہیں کسی اہم سرکاری عہدے پر فائز ہونا چاہیے۔ پاکستانی قوانین کا تقاضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ سماجی اور ثقافتی رابطے تو یکساں ہوتے ہیں مگر دوہری شہریت کے ساتھ ہمدردیوں کی تقسیم اور مفادات کے تصادم سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘

’دوہری شہریت حب الوطنی سے متصادم نہیں‘

معروف تجزیہ نگار اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق سربراہ غلام مصطفیٰ کے نزدیک،''دوہری شہریت کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ کوئی شہری یا عوامی نمائندہ پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف ہی کام کرے گا یا وہ کم محب وطن ہو گا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی شہری صرف اسی وقت اپنے وطن کا خیر خواہ ہو گا کہ اپنی دوہری شہریت ترک کر د ے۔ ایسے افراد ہیں یا رہے ہیں، جو دوہری شہریت رکھتے تھے، لیکن جنہوں نے پاکستان کے بہترین مفاد میں کام کیا اور اس ملک کا نام بھی روشن کیا۔‘‘

غیر مسلم ووٹروں کی تعداد میں تیس فیصد اضافہ

 انکا کہنا تھا کہ قوموں کے جمہوری رویوں کی تشکیل ایک طویل المدتی عمل ہے ، اگر کوئی یہ چاہے کہ پاکستان اپنے جمہوری معیارات میں یکدم برطانیہ یا امریکا جیسا بن جائے تو یہ ناممکن ہے۔ اسکے لیے دیرپا جمہوری رویے اپنانا ہوں گے، ووٹ کی حرمت بحال کرنا ہو گی اور انتخابی عمل کو سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے احستاب کے لیے استعمال کرتے رہنا ہو گا۔‘‘