’دہشت گردوں کی ڈرٹی بم سازی کے امکانات بہت زیادہ ہیں‘
25 مارچ 2016اس عالمی ادارے کے سربراہ نے یہ بیان برسلز میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں دیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امانو کا کہنا تھا،’’ دہشت گردی پھیلتی جا رہی ہے اور جوہری مواد کے استعمال کو بعید ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آئی اے ای اے کے رکن ممالک کو جوہری سکیورٹی کے حوالے سے مستقل، پائیدار اور طویل المیعاد دلچسپی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘ یوکیا امانو کے بقول،’’چند ممالک کی طرف سے جوہری خطرات کو تسلیم نہ کرنے کا عمل سب سے زیادہ خطرناک بات ہے۔‘‘
آئی اے ای اے کے چیف نے اپنے ان خیالات کا اظہار اُس اجلاس سے قبل ہی کر دیا جو اکتیس مارچ تا یکم اپریل واشنگٹن میں جاری رہے گا اور اس میں دنیا بھر سے قریب 50 لیڈران شریک ہوں گے۔ اس اجلاس کا ایک اہم مقصد اس وقت دنیا بھر میں پائی جانے والی لگ بھگ ایک ہزار جوہری تنصیبات میں موجود نیوکلیئر مواد کے محفوظ ہونے کی یقین دہانی کرانا ہوگا۔
دنیا کو لاحق جوہری دہشت گردی کے خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیلجیم کی پولیس نے 13 نومبر 2015 ء میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی تفتیشی کارروائی کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ سال دسمبر میں انہیں دوران تشویش دس گھنٹوں پر محیط ایک ویڈیو ملی، جس میں بیلجیم کے جوہری شعبے کے ایک سینیئر آفیسر کی نگرانی کی گئی تھی۔ یہ فلم ایک ایسے کیمرےا سے بنائی گئی تھی جو اس آفیسر کے گھر کے باہر جھاڑیوں میں خفیہ طور پر نصب کیا گیا تھا۔ یہ فلمی مواد محمد بکالی نامی اُس مبینہ دہشت گرد کے اثاثوں میں سے ملا جسے پیرس کے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں بیلجیم میں قید میں رکھا گیا تھا۔ بیلجیم کے ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مواد کسی اور نہیں بلکہ برسلز کے خود کُش حملہ آور برادران ابراہیم اور خالد البکراوی نے اکٹھا کیا تھا۔
واشنگٹن کے مجوزہ اجلاس کا سلسلہ امریکی صدر باراک اوباما نے 2009ء میں یورپی شہر پراگ میں ایک تقریر سے کیا تھا۔ بعد ازاں ایسا ہی ایک اجلاس 2012 ء میں سیئول اور 2014 ء میں دی ہیگ میں منعقد ہوا تھا۔
جوہری سکیورٹی کے حوالے سے اہم پیش رفت اُن ممالک میں دیکھنے میں آئی جنہوں نے جوہری مواد کی ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ بند کر دیا۔ ماہرین کے مطابق جاپان اس کی ایک مثال ہے جس نے رواں ماہ امریکی معیار کے مطابق جوہری مواد کی مقدار کم کر کے اسے 50 جوہری بم بنانے کے لیے درکار پلوٹونیم کی مقدار تک پہنچا دیا۔
تاہم ایک بین الاقوامی پینل کے مطابق اب بھی اتنا پلوٹونیم اور افزودہ یورینیم موجود ہے جس سے اُس شدت کے 20 ہزار جوہری ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں جو 1945ء میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر برسائے گئے تھے۔
ماہرین کے مطابق ایک چکوترے کے سائز جتنی مقدار میں پلوٹونیم سے ایک جوہری بم تیار کیا جاسکتا ہے۔ آئی اے ای اے کے چیف یوکیا امانو کے بقول یہ امر کہیں سے بھی ’’ناممکن‘‘ نہیں ہے کہ پلوٹونیم ہاتھ آ جانے پر دہشت گرد ایک ابتدائی شکل کی نیوکلیئر ڈیوائس نہ بنا سکیں۔ امانو نے مزید کہا ہے کہ موجودہ دور میں دہشت گردوں کے پاس ذرائع، علم اور معلومات سب ہی کچھ موجود ہے۔ انہوں نے ایک ’’ڈرٹی بم‘‘ کے خطرات کے بہت زیادہ امکانات سے متنبہ کیا ہے۔